بعض مفاد پرست عناصر سینٹرل یونیورسٹی کشمیرکو زک پہنچا نے کے درپے:رجسٹر ار سینٹرل یونیورسٹی کشمیر

بعض مفاد پرست عناصر سینٹرل یونیورسٹی کشمیرکو زک پہنچا نے کے درپے:رجسٹر ار سینٹرل یونیورسٹی کشمیر

’طلبہ کی شکایات کا ازالہ کرنا ہماری ذمہ داری ‘

مستقبل میں اسکل ڈیولپمنٹ کورسز پر مزید توجہ مرکوز کی جائیگی ،اہداف مقرر: پروفیسر محمد افضل زرگر

شوکت ساحل

سرینگر:: سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے رجسٹرار پروفیسر محمد افضل زرگر نے کہا کہ بعض مفاد پرست عناصر اپنے حقیر ذاتی مفادات کی خاطر وادی کشمیر کے اہم ترین تعلیمی ادارے کی ساکھ کو زک پہنچانے اور شبیہ بگاڑ نے کے درپے ہیں ۔ان کا کہناتھا کہ مفاد پرست عناصر غلط فہمیاں پیدا کرکے سینٹرل یونیورسٹی کشمیر سے متعلق غلط جانکاری دے رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کی انتظامیہ ایسے مفاد پرست عناصر کی منفی سوچ کو اپنی مثبت سوچ سے تبدیل کرے گی۔

ایشین میل سے خصوصی گفتگو کے دوران سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے رجسٹرار پروفیسر محمد افضل زرگر نے کہا کہ نہ صرف وادی کشمیر بلکہ ملکی سطح پر اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے کافی محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے اعداد وشمار ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے 26فیصد نوجوان ہی اعلیٰ تعلیم سے ہمکنار ہورہے ہیں اور یہ شرح بہت کم ہے ۔ان کا کہناتھا نئی تعلیمی پالیسی کے تحت یہ شرح26فیصد سے بڑھا کر50فیصد کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا اور سنہ2035اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے جبکہ سینٹرل یونیورسٹی کشمیر پہلا تعلیمی ادارہ ہے ،جس نے نئی تعلیمی پالیسی کو کیمپس میں لاگو کیا ہے ،جس کے ثمر آور نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں‘ ۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے اور زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے نور سے منور کرنے کے لئے ہی گیارہ برس قبل سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا ۔

ایک سوال کے جواب میں پروفیسر محمد افضل زرگر نے کہا ’دیگر تعلیمی اداروں کی موجودگی کے باوجود سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے قیام کا بنیادی مقصد جتنے چراغ اتنی روشنی کے مترادف ہے ‘۔کشمیر کے اعلیٰ تعلیمی ادارے کو درپیش چیلنجز کے بارے میں سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے رجسٹرار پروفیسر محمد افضل زرگر کا کہناتھا ’اس حقیقت سے قطعی طور انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سنہ2009-10کے قیام کے وقت یونیورسٹی کو کئی چیلنجز درپیش تھے ،ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا تھا،ہمیں حکومت کی طرف سے عارضی عمارتیں فراہم کی گئی تھیں ۔تاہم شدید مشکلات کے باوجود یہ ادارہ اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے نمایاں اور کلیدی کردار ورول ادا کر رہا ہے ‘۔ان کا کہناتھا ’یونیورسٹی کیمپس کے لئے معیاری اراضی کی ضرروت تھی اور تولہ مولہ گاندر بل میں مستقل کیمپس کے لئے فراہم کی گئی اراضی چیلنجز سے نمٹنے میں مدد گار ثابت ہورہی ہے ‘۔ان کا کہناتھا کہ معیاری اراضی کے لئے حکومت نے ایک ٹیکنکل کمیٹی بھی بنائی ہے جس میں ماہر ارضیات بھی شامل ہیں ،جو ہمیں پریشانی اور مخمصے سے نکالنے میں مدد فراہم کررہے ہیں ۔

ان کا کہناتھا ’ ہم بری طرح سے پریشانی اور مخمصے میں پھنس کر رہ گئے تھے ،لیکن مرکزی اور جموں وکشمیر کی حکومتوں کے بھر پور تعاﺅن سے ہم اس پریشانی اور مخمصے کی دلدل سے آہستہ آہستہ باہر نکل رہے ہیں ‘۔انہوں نے کہا ’ تولہ مولہ گاندر بل کے مستقل اور مرکزی کیمپس میں کئی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں اور مزید عمارتیں زیر تعمیر ہیں ،جہاں اس وقت6شعبہ جات نہ صرف قائم کئے گئے ہیں بلکہ یہ فعال بھی ہیں ‘۔ایک سوال کے جواب میں سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے رجسٹرار پروفیسر محمد افضل زرگر نے کہا کہ موجودہ بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے وہ مطمئن ہیں ،گاندر بل کے گرین کیمپس اور تولہ مولہ مرکزی کیمپس میں نہ صرف اعلیٰ تدریسی عملہ تعینات کیا گیا بلکہ زیر تعلیم طلبہ کے لئے معیاری ساز وسامان بھی دستیاب رکھا گیا ہے ،تاکہ اُنکی مستقبل کی پڑھا ئی متاثر نہ ہو ‘۔ان کا کہناتھا ’ سینٹرل یونیورسٹی کشمیر میں معیاری درس وتدریس کے عمل کو پہلی ترجیحات میں رکھا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس بہترین اور اعلیٰ ٹیچنگ اسٹاف دستیاب ہے ‘۔

رجسٹرار نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ سینٹرل یونیورسٹی کشمیر واحد ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے ،جو وقت پر ڈگری کورس مکمل کراتا ہے ،ڈگری چاہیے پانچ سال کی ہو یا دو سال کی ،شیڈول کے مطابق امتحانات منعقد کیے جاتے ہیں اور نتائج بھی وقت پر ظاہر کیے جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں ورک کلچر سب سے بہترین اور اعلیٰ ہے جبکہ دیگر اداروں میں ایک ہزار ملازمین جو کام انجام دیتے ہیں ،ہمارے صرف ایک سو ملازمین ہی وہ کار نامہ انجام دیتے ہیں ۔ان کا کہناتھا ’ہم چاہتے یہ تعلیمی ادارہ پہلے جموں وکشمیر ،پھر شمالی ہند اور بعد میں ملکی سطح پر اول نمبر کا تعلیمی ادارے بنے ،جسکے لئے تمام تر اقدامات کئے جارہے ہیں اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لایا جارہا ہے ‘۔رجسٹرار نے کہا ’ہم چایتے ہیں کہ اس ادارے میں ملک کے کونے کونے سے نوجوان آکر اپنے ناموں کا اندراج کرائیں ، کیوں کہ تنوع سے ہی معیاری اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیاجاسکتا ہے ‘۔

ایک اورسوال کے جواب میں سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے رجسٹرار پروفیسر محمد افضل زرگر نے کہا کہ سینٹرل یونیورسٹی کشمیر نے جدت طرازی کے پروگرام پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے اور یہ جموں وکشمیر اور شمالی بھارت کا پہلا ادارہ ہے ،جہاں پانچ سال کے ڈگری کورس کو متعارف کرایا گیا ہے ‘۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ درس وتدریس اور تحقیقی عمل کو فروغ دینے کے لئے اس تعلیمی ادارے نے کئی پروگرام ہاتھ میں لیے ہیں جبکہ یونیورسٹی میں اس وقت300سے زیادہ اسکالر ہیں ،جو سماج کے تئیں اپنی خدمات انجام دینے کے لئے مختلف شعبہ جات میں تحقیق کررہے ہیں ۔

ان کا کہناتھا ’یونیورسٹی کے اسکالر جموں وکشمیر کے مسائل پر کام کررہے ہیں اور اپنی تحقیق میں مصروف ِ عمل ہیں ‘۔انہوں نے کہاکہ سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے اسکالروں کی تحقیق سے آنے والے برسوں میں جموں وکشمیر کے سماج و معاشرے پر مثبت اثرات پڑیںگے اور اُنکی تحقیق کے نتائج قابل تحسین ہی نہیں بلکہ قابل فخر بھی ہوں گے ۔انہوں نے کہا ’سینٹرل یونیورسٹی کشمیر سماج کے تئیں اپنا رول بھی ادا کررہی ہے اور اس مقصد کے لئے کئی اداروں کا بھی اشتراک حاصل کیا گیا ہے اور کئی اسکولوں کو گود بھی لیا گیا ہے ‘۔انہوں نے کہا ’یونیورسٹی کے44کورسز یا پروگراموں میں سے ضلع گاندر بل کے لئے ہر ایک کورس یا پروگرام میں ایک نشست مختص رکھی گئی ہے ‘۔اسکل ڈیولپمنٹ کورسز کے بارے میں اُن کا کہناتھا کہ یونیورسٹی میں ایسے کئی کورسز متعارف کرائے گئے ہیں ،جن کے ذریعے اسکل ڈیولپمنٹ کو فروغ دیا جارہا ہے ،تاکہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلبہ روزگار سے بھی ہمکنار ہو سکیں ‘۔انہوں نے کہا کہ مستقبل میں اسکل ڈیولپمنٹ کے حوالے سے مزید کورسز متعارف کرائے جائیں گے ۔

یونیورسٹی میں طلبہ کی شکایات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے رجسٹرار پروفیسر محمد افضل زرگر نے کہا ’ طلبہ اپنی شکایات اور اپنے مسائل ومشکلات اُجا گر کرنے کے لئے آزاد ہیں ۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اُنکی شکایات کا ازالہ کریں جبکہ ہم طلبہ کی شکایات کا ترجیحی بنیادوں پر ازالہ بھی کررہے ہیں ،ہم اس وقت ترقی کے دور سے گزر رہے ہےں اور ہم طلبہ کی بنیادی سہولیات کی طرف خاص توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں ‘۔ان کا کہناتھا ’ایک ادارہ ہر کوئی سہولیت فراہم نہیں کرسکتا ہے ،تاہم طلبہ کے لئے سہولیات کو بڑھا رہے ہیں ‘۔انہوں نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ’طلبہ کو ہاسٹل سہولیت کی کمی کا سامنا ہے ،ہمارے پاس دو ہاسٹلز تھے ،ایک بائز اور ایک گرلز لیکن بعض وجوہات کی بناءپر ہمیں اِن دونوں ہاسٹلز سے ہاتھ دھونا پڑا ،ہم متبادل سہولیت بھی طلبہ کو دے رہے ہیں ،مسائل ہیں ،جنہیں حل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ‘۔ان کاکہناتھا ’اگلے تعلیمی سیشن کے دوران طلبہ کی کوئی شکایت نہیں ہوگی ‘۔

رجسٹرار نے کہا’طلبہ کو سڑکوں پر آنے کی بجائے ہمارے پاس آنا چاہیے ،ہم اُنکی شکایات کا ازالہ کرنے کے لئے تیار ہیں ،ہم نے طلبہ اور تدریسی وغیر تدریسی اسٹاف کے لئے علیحدہ علیحدہ شکایتی پورٹل بھی قائم کئے ہیں،ان پورٹلز پر دونوں طلبہ اور تدریسی عملہ اپنی شکایات درج کراسکتے ہیں ،ازالہ کر نا ہماری ذمہ داری ہے ‘۔اردو زبان اور اردو صحافت کے فروغ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے رجسٹرار پروفیسر محمد افضل زرگر نے کہا کہ اردو صحافت میں ڈپلو ما کورس متعارف کیا گیا ہے ،20نشستیں رکھی گئی تھیں، 10ہی طلبہ نے داخلہ لیا ۔تاہم شروعات اچھی ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا ’فروغ اردو کے لئے یہ اعلیٰ تعلیمی ادارہ اپنا بھر پور رول ادا کررہا ہے ۔سائنسی مواد کا اردو میں ترجمہ کیا جارہا ہے ،کیوں کہ سائنس ہی ترقی کا زینہ ہے ،اسکے علاوہ کشمیر ی زبان کو فروغ دیا جارہا ہے ‘۔انہوں نے کہاکہ ادارہ دو زبانوں اردو اور کشمیری میں دو جریدے بھی شائع کررہا ہے۔رجسٹرار کا کہنا تھا کہ اردو زبان میں تجسس اور کشمیری زبان میں گاش جریدہ شائع کیاجارہا ہے اور ان دونوں جریدوں کو عوامی سطح پر عنقریب منظر عام پر لایاجائیگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.