بلاشبہ مشرقی روایات اور اسلامی اقدار میں مہمان نوازی کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں مہمان کی خاطر مدارت‘ چائے پانی اور قیام و طعام کا خصوصی اہتمام کرنے کی قابلِ فخر روایت ہے۔ کشمیر میںاس روایت کا کوئی دوسرا ثانی نہیں ۔یہاں کی مہمان نوازی کی مقبولیت صرف ملک میں ہی نہیں بلکہ پورے عالم میں ہے ۔کشمیر کی مہمان نوازی یہاں کی تہذیب وتمدن اور ثقافت کا ایک اہم جز ہے ۔یہاں مہمان ،مہمان نہیں رہتا بلکہ کنبے کا فرد تصور کیا جاتا ہے ۔اس لئے بسا اوقات مہمان کے منع کرنے کے باوجود اس کے سامنے اشیائے خور ونوش کے انبار لگا دیے جاتے ہیں اور وہ بے چارہ انکار بھی نہیں کر سکتا۔ ہماری اس خوبصورت روایت سے ملکی اورغیر ملکی سیاح بھی بہت متاثر ہوتے ہیں اور وہ جنت بے نظیر (کشمیر) سے جڑی خوبصورت یادوں میں مہمان نوازی کو سرفہرست رکھتے ہیں۔ یہ باعثِ اجر و ثواب بھی ہے اور ذہنی اور روحانی سکون کا سبب بھی، کشمیری اس حوالے سے خاصے مشہور ہیں اور مخصوص کشمیری پکوان اپنے مہمان کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں۔ یہ خوبصورت روایت کشمیری معاشرے میں ایک کلیدی حیثیت کی حامل ہے اور ہمارے دین کی روح بھی ہے جس کی وجہ سے ایک مضبوط انسانی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور باہمی پیار، محبت اور ایثار کے جذبات پروان چڑھتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مہمان نوازی کی خوبصورت روایت کو سرکاری دفاتر میں”چائے پانی“ کا نام دے کر رشوت ستانی کے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور دفاتر میں آنے والے سائلین کو جائز امور کی انجام دہی کیلئے بھی ’مال پانی‘ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔چائے پانی ”رشوت ستانی “ کا دوسرا نام بن چکا ہے ۔پانی کی کینکشن کے لئے چائے پانی ،بجلی ٹرانسفار مر کی مرمت کے لئے چائے پانی ،سیوریج (ڈرنیج سسٹم ) کی بحالی کے لئے چائے پانی ،صحت وصفائی کے لئے چائے پانی ،ریٹائر منٹ کی فائل آگے بڑھانے کے لئے چائے پانی ،برتھ یا ڈیتھ سرٹیفکیٹ نکالنے کے لئے چائے پانی ،مکان کے نقشے کی اجرائی کے لئے چائے پانی ۔غرض ہر ایک معاملے میں چائے پانی کا رعنصر اس قدر پیوست ہوا ہے کہ اب اس کے بغیر کوئی بھی کام کرنا ممکن نہیں ۔ رشوت ستانی کے مکروہ دھندے کو چائے پانی کی پوشاک پہنا کر لوگوں کی جیبیں کاٹی جاتی ہیں۔ عام طور پر رشوت خور اہلکار سائلوں کی خدمت میں چائے پانی بھی پیش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ میٹھے بول بول کر ان کی خوشامد کرتے ہیں اور پھر ان کی فائل کو فوراً حرکت میں لاتے ہوئے متعلقہ افسران سے منظور کروا کر ان کے حوالے کرنے سے پہلے مٹھائی کے نام پر’نذرانہ‘ وصول کرتے ہیں۔ کئی دفاتر میں باقاعدہ دھونس، دھمکی اور سخت لب و لہجہ اختیار کر کے غریب اور بے بس عوام کو رشوت دینے پر مجبور کیا جاتا ہے اور ان کے کاغذات پر طرح طرح کے اعتراضات لگا کر ہر روز نئی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ بالآخر وہ تھک ہار کر رشوت خور عناصر کی مٹھی گرم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کچھ دفاتر میں چائے پانی کے ریٹ طے شدہ ہیں اور کام کی نوعیت کے مطابق ریٹ پر عملداری یقینی بنائی جاتی ہے۔ اس کے بغیر فائل پر دستخط ہو ہی نہیں سکتے۔ رشوت کا ناسور ہمارے سرکاری ڈھانچے میں کینسر کی طرح سرایت کر چکا ہے اور دیمک کی مانند سرکاری اداروں کی جڑیں کھوکھلا کر رہا ہے۔ رشوت کے رسیا اہلکار اور افسران اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ سفارش ماننے سے ان کی’کمائی‘میں کمی کا اندیشہ موجود ہوتا ہے ۔لہٰذا ان پر کسی بھی قسم کا دباﺅ یا سفارش اثر نہیں کرتی۔ یہ عناصر اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے سے بھی نہیں گھبراتے اور سروس کے دوران متعدد مرتبہ معطل ہونے کے باوجود ہر بار بحال ہو کر ہر آنے والے کی جیب پر نظریں جمائے رکھتے ہیں۔ اکثر ان وارداتیوں کے ہاتھ بڑے لمبے ہوتے ہیں اور اعلیٰ افسران تک ان کی رسائی ہوتی ہے اور کئی تو باقاعدہ ان کے پشت پناہ ہوتے ہیں۔اس ناسور کی بیخ کنی کے لئے عوام کو آواز بلند کرنے کے لئے حوصلہ کرنا ہوگا ۔کورپٹ نظام پر خاموشی نہیں بلکہ عوامی بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔۔۔کیوں کہ





