کشمیر بھارت کا دل:امیت شاہ

کشمیر بھارت کا دل:امیت شاہ

جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ اسمبلی انتخابات کے بعد بحال کر دیا جائے گا: امت شاہ

شوکت ساحل /یو این آئی

سری نگر/شدید برف وباراں کے بیچ دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد ہفتہ کو مرکزی داخلہ امیت شاہ  اپنے پہلے دورے پرسرینگر پہنچ گئے ،جس دوران انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ اسمبلی انتخابات کے بعد بحال کر دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ کشمیر بھارت کا دل ہے اور ہر بھارت واسی چاہتا ہے کہ ہمارے کشمیر میں خوشحالی، امن اور ترقی آئے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم پانچ اگست 2019 کے فیصلے لینے کے موقع پر کشمیر میں کرفیو نافذ نہ کرتے تو نہ جانے کتنے بوڑھے باپ اپنے جوان بیٹوں کا جنازہ اٹھاتے۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ جموں و کشمیر کے امن کو خراب کرنا چاہتے ہیں یا چاہیں گے ہم ان کے ساتھ سختی سے نمٹیں گے۔

امت شاہ نے یہ باتیں ہفتے کو یہاں جموں و کشمیر کے یوتھ کلبز کو خطاب کرنے کے دوران کیا ہے۔انہوں نے کہا: ‘کشمیر کے مستقبل کو سنوارنے کی ذمہ داری آپ کی ہے۔ آپ سب ایک جٹ ہو جائیں۔ ہم جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ انتخابات کرانے ہی کرانے ہیں۔ حد بندی کو کیوں روکنا ہے؟ اب کشمیر میں کچھ بھی رکنے والا نہیں ہے۔ یہاں حد بندی کے بعد انتخابات ہوں گے اور پھر ریاستی درجہ بحال ہو گا’۔

ان کا مزید کہنا تھا: ‘میں نے ریاستی درجے کی بحالی کا وعدہ ملک کے پارلیمنٹ میں کیا ہے۔ یہی روڈ میپ ہے۔ میں تو کشمیری نوجوانوں سے دوستی کرنے آیا ہوں۔ اب آپ مودی جی اور بھارت سرکار کے ساتھ جڑ جائیں۔ اور کشمیر کو آگے لے جانے کی یاترا کا حصہ بنیں’۔

امت شاہ نے کہا کہ پانچ اگست 2019 کے فیصلے لینے سے قبل یہاں کے لوگوں کے جذبات بھڑکانے کی سازش رچائی گئی تھی۔انہوں نے کہا: ‘اس سازش میں کچھ غیر ملکی طاقتوں بھی شامل تھیں۔ اگر ہم کرفیو نافذ نہ کرتے تو نہ جانے کتنے بوڑھے باپ اپنے جوان بیٹوں کا جنازہ اٹھاتے۔ کرفیو کے نفاذ سے کشمیر کے نوجوان بچ گئے ہیں۔ انٹرنیٹ بند کیا تو کشمیر کا نوجوان بچا ہے’۔

انہوں نے کہا: ‘آج صورتحال معمول پر ہے تو سب کچھ کھلا ہے۔ آج کوئی کرفیو نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ لمبے بھلے کے لئے آپ کو تھوڑی تکلیف اٹھانی پڑی ہے۔ کشمیر تو بھارت کا دل ہے۔ ہر بھارت واسی چاہتا ہے کہ میرے کشمیر کے اندر خوشحالی، امن اور ترقی آئے’۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ پانچ اگست کے فیصلوں سے پہلے یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ ملی ٹنسی بڑھ جائے گی۔انہوں نے کہا: ‘سنہ 2004 سے سنہ 2014 تک یہاں 2081 لوگ مارے گئے۔ یعنی ہر سال 208۔ اور سنہ 2015 سے سنہ 2021 تک ہر سال 30 لوگ مارے گئے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی میں کمی آئی ہے’۔

انہوں نے کہا: ‘یہاں تو پتھرائو غائب ہوا ہے۔ جو لوگ جموں و کشمیر کے امن کو خراب کرنا چاہتے ہیں ہم ان کے ساتھ سختی سے نمٹیں گے۔ موجودہ وکاس کی یاترا کو کوئی روک نہیں سکتا ہے۔ یہ ہمارا عزم ہے’۔

انہوں نے کہا: ‘یہاں اب تک 40 ہزار لوگوں کی جانیں چلی گئی ہیں۔ اس میں دہشت گرد، سکیورٹی اہلکار اور عام شہری یعنی سبھی شامل ہیں۔ دہشت گردی اور وکاس کا ایک ساتھ چلنا ممکن نہیں ہے۔ وکاس کی پہلی شرط امن ہے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کا کام یہاں کے یوتھ کلبز سے وابستہ 45 ہزار نوجوانوں کو کرنا ہے’۔

مسٹر شاہ نے کہا کہ جموں و کشمیر میں ترقی کے ایک نئے دور کی شروعات ہوئی ہے۔انہوں نے کہا: ‘پاس میں ہی پاکستان زیر قبضہ کشمیر ہے۔ ہم یہاں کی ترقی سے ابھی بھی مطمئن نہیں ہیں۔ لیکن آپ ایک بار اس اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کے درمیان موازنہ کریں۔ آپ کو غریبی اور اندھیرے کے بغیر کچھ نظر نہیں آئے گا۔ وہاں آج بھی گھروں میں لکڑیاں اور ٹہنیاں جلا کر کھانا تیار کیا جاتا ہے۔ یہاں وکاس کے ایک نئے دور کی شروعات ہوئی ہے’۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ پورے ملک میں جموں و کشمیر جیسی انڈسٹریل پالیسی کہیں نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘اس کی بدولت صرف چھ ماہ میں یہاں 12 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری آ چکی ہے۔ اس میں وادی میں پانچ ہزار اور جموں میں سات ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری آئی ہے۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ ہم سنہ 2022 تک 50 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کا ہدف پورا کریں گے’۔

امت شاہ نے کہا کہ یہاں کے نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کے دوران میرے دماغ میں آیا کہ ڈھائی سال سے پہلے جس کشمیر سے پتھرائو، ملی ٹنسی اور تشدد کی خبریں آتی تھیں آج اسی کشمر کے نوجوان ترقی، روزگار اور وظیفے کی بات کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا: ‘اس سے لگتا ہے کہ کتنا بھاری بدلائو ہوا ہے۔ اس بدلائو کو کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ پانچ اگست 2019 کا دن کشمیر کی تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھا جانے والا دن ہے۔ کشمیر کے اندر ایک نئی شروعات ہوئی ہے۔ دہشت گردی، رشوت خوری اور اقربا پروری کا خاتمہ ہو کر امن، ترقی اور استحکام کے ایک نئے دور کی شروعات ہوئی ہے۔ آج ہر ایک نوجوان کہتا ہے کہ ہمیں موقع ملا ہے۔ زندگی میں موقع ملنا ایک بہت بڑی چیز ہوتی ہے’۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ہمارا مقصد ایک ایسے جموں و کشمیر کی تعمیر ہے جو ‘لینے والا نہیں بلکہ دینے والا بن جائے’۔ان کا کہنا تھا: ‘کشمیر کو بھارت سرکار سے مدد آتی تھی اور آنی بھی چاہیے۔ لیکن ایک دن آئے گا جب کشمیر بھارت سرکار کو کنٹریبیوٹ کرے گا۔ یعنی یہ ایک لینے والا نہیں بلکہ دینے والا خطے بنے گا۔ ایسا جموں و کشمیر بنانا ہمارا ہدف ہے۔ اس میں بہت بڑا کردار یہاں کے نوجوانوں کا ہے’۔

مسٹر شاہ نے کہا کہ رشوت خوری نے جموں و کشمیر کی جڑیں کھوکھلی کی تھیں۔نہوں نے کہا: ‘میں یہ بات بڑے ہی دکھ اور درد کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ آزادی کے بعد اگر بھارت سرکار نے کسی ریاست کی زیادہ مدد کی ہے تو وہ جموں و کشمیر ہے۔ لیکن غریبی گئی نہ بے روزگاری۔ غریب کا خاتمہ اور روزگار ملنا اب شروع ہوا ہے’۔

ان کا مزید کہنا تھا: ‘پڑھائی لکھائی کے لئے یہاں سے پاکستان جاتے تھے۔ ہم نے یہاں سات نئے میڈیکل کالج کھولے۔ یہاں کے غریب والدین کے ذہین بچوں کو اب ڈاکٹر بننے کے لئے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے’۔
یو این آئی

امت شاہ مہلوک پولیس افسر پرویز احمد کے گھر گئے

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ ہفتے کو یہاں شہر کے مضافاتی علاقہ نوگام میں واقع چار ماہ قبل جنگجوؤں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سی آئی ڈی انسپکٹر پرویز احمد ڈار کے گھر تعزیت پرسی کے لئے پہنچے۔بعد ازاں وزیر داخلہ نے ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں وادی کشمیر کی سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا۔

موصوف وزیر داخلہ نے نوگام  میں مہلوک پولیس افسر کے اہلخانہ کے ساتھ ملاقات کی اور ان کی اہلیہ کو سرکاری نوکری کا آرڈر پیش کیا۔اس موقع پر لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا، وزیر اعظم کے دفتر میں وزیر مملکت ڈاکٹر جیتندر سنگھ اور پولیس سربراہ دلباغ سنگھ  بھی موجود تھے۔بتا دیں کہ امت شاہ جموں و کشمیر کے تین روزہ دورہ کے لئے ہفتے کی صبح سری نگر پہنچے۔لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے برستی بارش کے بیچ ان کا سری نگر ہوائی اڈے پر استقبال کیا۔ہوائی اڈے سے باہر جانے کے بعد موصوف وزیر داخلہ کا قافلہ سیدھے نوگام روانہ ہوا۔
امت شاہ نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ایک ٹویٹ میں کہا: ‘شہید پولیس افسر پرویز احمد ڈار کے گھر پہنچ کر ان کو خراج عقیدت پیش کیا مجھے اور پورے ملک کو ان کی بہادری پر فخر ہے’۔
انہوں نے ٹویٹ میں مزید کہا: ‘میں ان کے اہلخانہ سے ملا اور ان کی اہلیہ کو سرکاری نوکری دی، جموں و کشمیر پولیس مودی جی کے نئے جموں کشمیر کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تندہی سے کام کر رہی ہے’۔
قابل ذکر ہے کہ سری نگر کے مضافاتی علاقہ نوگام میں22  جون کی شام مشتبہ جنگجوؤں نے سی آئی ڈی انسپکٹر پرویز احمد ڈار کو ایک مقامی مسجد کے نزدیک گولیاں برسا کر ہلاک کر دیا تھا۔

اہم سیکیورٹی جائزہ میٹنگ
مجموعی صورتحال،شہری ہلاکتوں،جنگجوئیانہ سرگرمیوں پر تبادلہ خیال

سری نگر دفعہ 370و35Aکی منسوخی اورجموں وکشمیرکی تقسیم وتنظیم نوکے بعداپنے اولین تین روزہ دورے پرسری نگر پہنچنے کے فوراًبعدمرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ہفتہ کے روز وادی کشمیر میں عام شہریوں بالخصوص غیر مقامی مزدوروں اور اقلیتوں پر حملوں کے تناظر میں سیکورٹی صورتحال اور ملی ٹنسی کی سرگرمیوں سے نمٹنے کےلئے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لیا۔ سنیچرکی صبح تین روزہ دورے پریہاں پہنچنے کے بعدمرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کی زیرصدارت یہاں راج بھون میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقدا،جس میں پولیس،فورسز،فوج وسول انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی جن میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور فوج ، سی آر پی ایف ، پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے سینئر سیکورٹی حکام شامل تھے۔

اجلاس میں میں جموں وکشمیربالخصوص کشمیروادی سیکورٹی منظر نامے کا جائزہ لیاگیا۔دن کے ساڑھے12بجے شروع ہونے والے اس اہم اجلاس میں آئی بی چیف اروندکمار،ڈی جی سی آرپی ایف کلدیپ سنگھ،ڈی جی بی ایس ایف پنکج سنگھ،ڈی جی این ایس جی ایم اے گناپاتھی،ڈی جی پی دلباغ سنگھ اورسینئرآرمی کمانڈربھی موجودتھے ۔معلوم ہواکہ ڈی جی پی دلباغ سنگھ نے اجلاس کے آغازمیں امن وقانون ،شہری ہلاکتوں،جنگجوئیانہ سرگرمیوںاورجنگجومخالف آپریشنوںکے حوالے سے خصوصی پرزنٹیشن پیش کی ،اس موقعہ پرآئی جی پی کشمیروجئے کماربھی موجودتھے ۔سرکاری عہدیداروں نے بتایا کہ مرکزی وزیر داخلہ کو جموں و کشمیر سے ملی ٹنسی کے مکمل خاتمے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات اور فورسز کی جانب سے انسداد دراندازی کے اقدامات کے بارے میں بتایا گیا۔

خیال رہے امت شاہ کا دورہ کشمیر صرف اکتوبر میں وادی میں 11 شہری ہلاکتوں کے پس منظر میں آیا ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں سے 5 بہار کے مزدور تھے جبکہ 3 اساتذہ سمیت کشمیر میں اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھتے تھے۔5،اگست2019کودفعہ 370و35Aکی منسوخی اورجموں وکشمیرکی تقسیم وتنظیم نوکے بعدمرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کا یہ پہلا دورہ کشمیر ہے۔امت شاہ کے دورے سے قبل پورے کشمیر میں سیکورٹی بڑھا دی گئی تھی۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق سرکاری عہدیداروں نے بتایا کہ وادی بھر میں خاص طور پر شہر میں سیکورٹی فورسز کی اضافی تعیناتی کی گئی ہے۔

میڈیارپورٹس کے مطابق مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نے اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران پولیس،فورسزاورفوج کی انسدادملی ٹنسی حکمت عملی وکارروائیوںکی سراہنا کی تاہم انہوںنے سیکورٹی حکام پرزوردیاکہ وہ امن مخالف عناصر اورگروپوں کیخلاف اپنی کارروائیاں تیز کریں ۔انہوںنے سیکورٹی حکام سے یہ بھی کہاکہ مقامی اقلیتی برداری اورغیرمقامی مزدوروںکی حفاظت کویقینی بنانے کیلئے تمام ضروری اقدامات روبہ عمل لائے جائیں۔مرکزی وزیرداخلہ نے حکام سے کہاکہ سرحدپار کی کوشش ہے کہ جموں وکشمیرمیں امن وامان اورترقیاتی عمل کی موجودہ صورتحال میں رکاﺅٹ ڈالی جاسکے ،اسلئے تمام سیکورٹی ایجنسیوںکوباہمی تال میل کیساتھ ہمہ وقت چوکنا اورہوشیاررہنے کی سخت ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ملک کواپنی فوج اورتمام سیکورٹی ایجنسیوں واداروں پرمکمل اعتمادہے ،کیونکہ سیکورٹی ایجنسیوںنے ملک کی سا لمیت ،سلامتی اوریکجہتی کوقائم رکھنے کیساتھ ساتھ سرحدوںکی حفاظت کیلئے بیش بہاقربانیاں دی ہیں ۔اس دوران سرکاری ذرائع نے بتایا کہ حالیہ شہری ہلاکتوں کے تناظر میں اضافی نیم فوجی دستوں کی 50 کمپنیاں وادی میں تعینات کی جا رہی ہیں۔حکام نے بتایا کہ سی آرپی ایف کے زیر انتظام بنکر شہر کے کئی علاقوں کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر کے دیگر حصوں میں بھی آئے ہیں۔

لوگوں کو پروجیکٹوں کے افتتاح سے نہیں بلکہ اعتماد سازی کے اقدام سے راحت مل سکتی ہے: محبوبہ مفتی

پی ڈی پی صدر و سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا ماننا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو پروجیکٹوں کے افتتاح کرنے کی بجائے اعتماد سازی کے اقدام کرنے سے راحت مل سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سری نگر سے بین الاقوامی پروازوں اور میڈیکل کالجوں کا افتتاح کرنا کوئی نیا کارنامہ نہیں ہے بلکہ یو پی اے حکومت کے دوران نصف درجن میڈیکل کالجوں کو منظوری دی گئی تھی جو آج چل رہے ہیں۔

محبوبہ مفتی نے ان باتوں کا اظہار ہفتے کے روز وزیر داخلہ امت شاہ کے جموں و کشمیر کے تین روزہ دورے کے لئے سری نگر پہنچنے پر اپنے سلسلہ وار ٹویٹس میں کیا۔ان کا ٹویٹ میں کہنا تھا: ‘وزیر داخلہ کی طرف سے سری نگر سے بین الاقوامی پروازوں اور نئے میڈیکل کالجوں کا افتتاح کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے، یو پی اے حکومت نے نصف درجن میڈیکل کالجوں کو منظوری دی تھی جو آج چل رہے ہیں۔ دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد جموں و کشمیر کو بحران کے دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے’۔

محبوبہ مفتی نے اپنے ایک اور ٹویٹ میں کہا: ‘اعتماد سازی کے اقدام جیسے قیدیوں کی رہائی، لوگوں کی ہراسانی کو بند کرنا، اقتصادی بحالی وغیرہ اٹھانے سے لوگوں کو راحت مل سکتی ہے’۔

ان کا ٹویٹ میں کہنا تھا: ‘لیکن اس کی بجائے وزیر داخلہ کے دورے سے قبل سات سو شہریوں کو پی ایس اے کے تحت بند کر دیا گیا اور کئی قیدیوں کو کشمیر سے باہر کے جیلوں میں منتقل کیا گیا’۔

انہوں نے کہا: ‘ایسے سخت گیر اقدام سے پہلے سے ہی خراب ماحول مزید ابتر ہو رہا ہے نارملسی کے بلند بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں جبکہ زمینی حقائق سے چشم پوشی کی جا رہی ہے’۔

بشمولات یو این آئی

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.