وہ کشمیری خواتین جنہوں نے تانبے کے برتنوں کی کندہ کاری کا پیشہ اختیار کر کے روزگار کی سبیل پیدا کی

وہ کشمیری خواتین جنہوں نے تانبے کے برتنوں کی کندہ کاری کا پیشہ اختیار کر کے روزگار کی سبیل پیدا کی

سری نگر// نیشنل رورل لائیولی ہوڈ مشن (این آر ایل ایم) کی اسکیم ‘امید’ شمالی کشمیر کے سنگھ پورہ پٹن کے ایک مفلوک الحال گھرانے سے تعلق/ رکھنے والی بہنوں کے لئے نہ صرف موثر روزگار کا ذریعہ بن گئی بلکہ ان کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لئے بھی امید افزا ثابت ہوئی۔

عصمت نامی ایک لڑکی اور اس کی تین بہنوں نے اپنی ہی بستی کی 12 مزید لڑکیوں کو جمع کر کے سنگھ پورہ میں تانبے کے برتنوں کی کی ایک دکان قائم کی جہاں وہ تانبے کے مخلتف شکل و سائز کے برتنوں کی نقش و نگاری (کندہ کاری) کرنے کے بعد انہیں فروخت کر کے اچھی خاصی کمائی کرتی ہیں۔

 UNI PHOTO

گرچہ یہ پیشہ وادی میں مرد تجار کے لئے ہی مخصوص ہے لیکن عصمت اور ان کی سہیلیوں نے اس پیشے کو اختیار کر کے روایت شکن اقدام کیا اور دوسری خواتین کے لئے بھی دوسروں پر منحصر رہنے کی بجائے خود تلاش معاش کرنے کی مثال قائم کی۔
جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا حال ہی میں شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونشن کمپلیکس میں منعقدہ ایک پروگرام کے دوران ان لڑکیوں کے ہاتھوں تانبے کی مختلف ڈیزائیوں کی کندہ کاری سے مزین مصنوعات کو دیکھ کر از حد متاثر ہوئے اور ان خواتین کاریگروں کو یونین ٹریٹری سے باہر مزید تربیت دینے کی یقین دہانی کی تاکہ ان مصنوعات کو ملک کے مختلف حصوں تک پہنچایا جائے۔
چوبیس سالہ عصمت، جو اس گروپ کی سربراہ ہیں، نے مشکلات کے باوجود مردوں سے مخصوص اس پیشے کو اختیار کرنے کے بارے میں یو این آئی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ گھر کے خراب مالی حالات یہ پیشہ اختیار کرنے کے باعث بن گئے۔
انہوں نے کہا: ‘میں نے اپنی دو بہنوں کے ساتھ امید اسکیم کی مدد سے تانبے کے برتنوں کی کندہ کاریکا یہ یونٹ اس وقت قائم کیا جب ہمارے گھر کے مالی حالات انتہائی نا گفتہ بہہ تھے، اس کے لئے ہمیں اپنے مامو، جس کی سنگھ پورہ میں ہی تانبے کے برتنوں کی دکان ہے، سے تربیت حاصل کی’۔

SRINAGAR, OCT 11 (UNI) Kashmiri girls crafting Copper utensils chooses as their job to make ends meet in Singhpora pattan in North Kashmir. UNI PHOTO SRN2.


ان کا کہنا تھا: ‘ہم نے اس پیشے کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اختیار کیا اور پہلے میں نے اپنی بہن بنت الاسلام کو مامو کے گھر اس میں ضروری تربیت و تجربہ حاصل کرنے کے لئے بھیج دیا اس کے بعد میں نے اپنی بستی کی مزید بارہ لڑکیوں کو اس میں شامل کیا تاکہ یونٹ کو کامیابی کے ساتھ چلایا جائے’۔
عصمت نے کہا کہ ہمیں امید اسکیم کے تحت پہلے سال 2015 میں 15 ہزار روپے قرضہ دیا گیا اور اس کے بعد ہم نے اس تجارت کو مزید وسیع کرنے کے لئے اس اسکیم کے تحت بینک سے مزید پچاس ہزار روپے قرضہ لیا۔
انہوں نے کہا: ‘ہم نے ان پیسوں سے بازار سے تانبے کے برتن خریدے اور انہیں دلکش بنانے کے لئے ان پر کندہ کاری کرنا شروع کی اور اس دوران سنگھ پورہ پٹن میں ایک دکان قائم کی’۔
موصوفہ نے کہا کہ پہلے پہل لوگ ہمیں یہ پیشہ اختیار کرنے پر حوصلہ شکنی کرتے تھے۔
تاہم ان کا ساتھ ہی کہنا تھا: ‘لیکن بعد میں جب ہمارا تجارت بڑھنے لگا تو وہی لوگ آج ہماری حوصلہ افزائی کر رے ہیں’۔
ان کا مزید کہنا تھا: ‘ہم نے لوگوں کی باتوں کی طرف توجہ نہیں دی اپنے کام کو محنت و لگن سے کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہمارا اچھا خاصا کاروبار ہے جہاں ہم خود عزت و وقار کے ساتھ روزی روٹی کما رہے ہیں’۔
اپنے خراب گھریلو حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے عصمت نے کہا: ‘ایک وقت ایس آیا جب ہمیں روزی روٹی کمانے کے لئے تعلیم کو خیر باد کرنا پڑا لیکن خدا کے فضل و کرم سے ہم نے اندرا گاندھی نینشل اوپن یونیورسٹی کے ذریعے پڑھائی بھی دوبارہ شروع کی ہے’۔

SRINAGAR, OCT 11 (UNI) Asmat a Kashmiri girl who choses crafting Copper utensils job to make ends meet in Singhpora pattan in North Kashmir. UNI PHOTO SRN3.


انہوں نے کہا: ‘میں بی اے کے سال سوم میں زیر تعلیم ہوں جبکہ میری دو بہنیں بھی گریجویشن کر رہی ہیں اور ہمارا اکلوتا بھائی کشمیر یونیورسٹی سے تھیٹر اسسٹنٹ کورس کر رہا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ میری ماہانہ آمدنی پچیس سے تیس ہزار روپے تک ہوتی ہے جو گھر کے اخراجات پورا کرنے کے لئے کافی ہیں۔
عصمت نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے انہیں مزید تربیت اور مشینری فراہم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں لیفٹیننٹ گورنر صاحب نے تربیت اور مشینری فراہم کرانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب تک ایسا نہیں کیا گیا۔
انہوں کہا کہ میری باقی بہنوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی معزز ہنر سیکھ کر اپنے مالی ضروریات کو خود پورا کریں۔
یو این آئی ایم افضل۔ ظ ح بٹ

Leave a Reply

Your email address will not be published.