جنگ بندی معاہدے پر اتفاق: سرحدی علاقوں کے متاثرین خوش،کہا ’امید ہے کہ یہ دیر پا ثابت ہوگا‘

جنگ بندی معاہدے پر اتفاق: سرحدی علاقوں کے متاثرین خوش،کہا ’امید ہے کہ یہ دیر پا ثابت ہوگا‘

شوکت ساحل

سرینگر/ شمالی ضلع بارمولہ کی سرحدی تحصیل اوڑی کے سرائے بانڈی کمل کوٹ علاقہ میں برسوں پہلے گولہ باری سے زخمی ہوچکے 84سالہ بزرگ شہری کرامت حسین کی آنکھیں خشک ہوچکی ہیں۔کرامت نے حال ہی میں اپنے 40سالہ بیٹے کے جنازے کو کاندھا دیا ہے ۔ اپنے بیٹے کے4 بچوںکے مستقبل کے بوجھ کو اب یہ بزرگ شہری لاٹھی کے سہارے اٹھا رہا ہے ۔

گزشتہ برس13نومبر کو آر پار کی گولہ باری کے دوران کرامت حسین کا بیٹا ارشاد حسین اُس وقت اِسکی کی زد میں آگیا جب وہ چاﺅل اسٹور سے چاﺅل لے رہاتھا ۔ کمل کوٹ پہنچنے کے لئے دشوار ترین پہاڑی سلسلے سے ہوکر گزر نا پڑتا ہے ۔یہاں کے رہائشی ہر روز اسی دشوارترین پہاڑی سلسلے کو چیرتی ہوئی سڑک سے گزر کر اپنے روزمرہ کے معمولات ِ زندگی انجام دیتے ہیں ،لیکن یہ ہر وقت خوف میں رہتے ہیں کہ نہ جانے کب آہنی گولہ آکر اُن کے اوپر گر آئے گا ۔

نومبر 2020کو یہاں آخری باری گولہ باری ہوئی تھی ،جس دوران فوج کو بھی جانی نقصان سے دوچار ہونا پڑا تھا ۔فوج کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ گولہ باری کے وقت زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنا اُنکی پہلی ترجیح ہوتی ہے ۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان حد متارکہ (لائن آف کنٹرول ) پرجنگ بندی معاہدے کے بیچ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ  رہنے والے لوگوں اور آر پار گولہ باری سے متاثرین کو امید ہے کہ جنگ بندی معاہدے پر اتفاق دیر پا ثابت ہوگا ۔

دونوں ہمسایہ ممالک کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) نے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق24 اور25 فروری کی درمیانی شب معاہدے کے تحت لائن آف کنٹرول اور دوسرے سیکٹرز میں جنگ بندی پر عمل درآمد پر اتفاق کیا ہے۔ گولہ باری کے نتیجے میں ’ ایل او سی‘ کے نزدیک رہنے والے شہریوں کو جانی اور مالی نقصان سے دو چار ہونا پڑتا تھا۔

گولہ باری سے شدید متاثر ہوئے 84سالہ بزرگ شہری کرامت حسین کپکپاتے ہوئے اُس دن کو یاد کررہے ہیں ،جب اس کا بیٹا گولہ باری کی نذر ہوا ۔کرامت کہتے ہیں ’میں نے اپنی ساری عمر ایسا ہی دیکھا ہے ،کبھی ہمارے ہمسایہ جاں بحق ہوئے اور کبھی ہمارے عزیز واقارب ،13نومبر2020کو میرا بیٹا چاﺅل اسٹورسے چاﺅل لے رہا تھا ،اُس پار سے آنے والے ایک آہنی گولے نے میرے بیٹے کی جان لی،ایک پل میں میری زندگی ختم ہوئی،اس عمر میں مجھے اپنے بیٹے کا جنازہ اٹھانا پڑا ،یہ کہنے کے دوران کرامت کی آنکھیں پرنم تھیں ۔‘

دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر سختی کیساتھ عمل کرنے کے اتفاق پر کرامت حسین کہتے ہیں ’ہمیں ایسا لگ رہا ہے ،ہم نیند سے بیدا ہوئے ،ہم بہت خوش ہیں ،امید ہے کہ یہ دیر پا ثابت ہوگا ،ہمارے بچے سکون سے زندگی گزار سکیں گے اور پڑھائی بھی حاصل کرپائیں گے ۔‘

سرحدی تحصیل اوڑی سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر عمل در آمد کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ۔انہوں نے کہا ’یہ فیصلہ ہماری زندگیوں کے لئے اطمینان بخش اور قابل خوشی ہے ‘۔سرحدی علاقہ کمل کوٹ کے76سالہ قاضی محمد شیخ نامی شہری نے بتایا کہ اس علاقے میں 20سے25ہزار آبادی ہے ، جب گولہ باری ہوتی ہے ،اسکی زد میں ہم سب آتے ہیں ۔

انہوں نے کہا ’گولہ باری سے جانی ومالی نقصان سے یہاں کے لوگ ہر وقت دو چار ہوئے ،13نومبر2020کو گولہ باری ہوئی ،یہاں متعدد افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے جن میں سے ایک شہری دونوں ٹانگوں سے محروم ہوا ‘۔الزام عائد کرتے ہوئے قاضی محمد نے کہا ’ریڈ کراس نے تھوڑی بہت مالی مدد کی ،سرکار کی جانب سے کوئی معاوضہ نہیں ملا ‘۔

ان کا کہناتھا ’یہ ایک چنگاری ہے ،جو کسی بھی وقت برصغیر کو تباہ کرسکتی ہے ،لہٰذا دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کو آگے بڑھنا چاہئے ،کروڑوں لوگ دونوں ممالک کے درمیان امن کے خواہاں ہیں ،امن سے ہی ترقی ممکن ہے ‘۔

ایک اور شہری نے بتایا کہ گولہ باری کے نتیجے میں اُن کا بھائی نادر حسین اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو چکا ہے،یہاں ایسی کئی کہانیاں سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہے ۔فوج کے افسر نے بتایا کہ مذکورہ شہری کو مصنوعی اعضا ءفراہم کرنے کے لئے ہر ممکن مددکی جائیگی ۔انتظامیہ سے نالاں یہاں کے شہریوں کو فوج سے کافی امیدیں وابستہ ہیں ،کہ وہ اُنہیں راحت پہنچائی گی ۔

کمل کوٹ ،سرائے بانڈی ،دلانجاں ،کنڈی پنجالہ ،حاجی پیراور اسکے گرد نواح کے علاقے لائن آف کنٹرول کے نزدیک واقع ہے ۔یہ علاقے پہاڑوں اور بادلوں سے گھرے ہوئے ہیں ۔یہاں جب بھی ہند وپاک افواج کے درمیان گولہ باری کا تبادلہ ہوتا ہے ،تو یہ سرحدی علاقے کے باشندگان شدید جانی ومالی نقصان سے دوچار ہوتے ہیں ۔ماضی میں ایسا ہی ہوا ہے ۔

کمل کوٹ اوڑی میں صرف ایک زیر زمین بنکر ہے

کمل کوٹ میں صرف ایک چھوٹا سے زیر زمین بنکر ہے ۔یہ محکمہ رورل ڈیولپمنٹ ،بلاک پاران پلان نے سال2020میں اسکولی بچوں کے لئے تعمیر کیا ہے ۔اعجاز احمد شیخ نامی شہری کہتے ہیں ’میں نے بنکر کی تعمیر کے لئے زمین دی اور خود ہی بنکر بھی تعمیر کرایا ،بنکر کی تعمیر پر دو لاکھ سے زیادہ روپے کا خرچہ آیا لیکن ابھی تک پیسہ نہیں ملا ،بس دفتر کے چکر لگائے جارہے ہیں ۔‘

شہری ارشاد احمد کہتے ہیں کہ اب سرحد پر صورتِ حال کے بدلنے کی امید پیدا ہوئی ہے اور کم از کم سکون کا سانس تو لے پائیں گے۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے وہ پِس رہے تھے اور آئے دن کی فائرنگ اور شیلنگ کے نتیجے میں وہ اپنے پیاروں کو کھو رہے تھے۔ایک اور شہری کا کہنا تھا کہ ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اب وہ رات کو اچھی طرح سے سو پائیں گے۔

خیال رہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ نومبر2003 میں طے پایا تھا۔ کئی سال تک اگرچہ اس معاہدے کی پاسداری ہوتی رہی۔ البتہ وقت گزرنے کے ساتھ کئی بار معاہدے کی خلاف ورزیاں بھی ہوتی رہیں۔

سرحدی علاقوں میں عام لوگوں شدید ترین مشکلات کا سامنا

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سال2020میں5ہزار مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئیں ۔سال2019میں قریب35ہزار مرتبہ اور سال2018میں 2ہزار100مرتبہ خلاف ورزیاں ہوئیں ۔نومبر2020میں ایک ہی دن میں اوڑی میں گولہ باری کے نتیجے میں 10عام شہری ہلاک ہوئے تھے ۔

جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے بھی بھارت اور پاکستان کے فوجی حکام کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے دونوں ملکوں کے تعلقات کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے۔سابق وزیرِ اعلیٰ جموں و کشمیر اور ‘نیشنل کانفرنس’ کے صدر ڈاکٹرفاروق عبد اللہ نے کہا ہے کہ یہ اقدام پائیدار امن کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس دونوں ممالک کے درمیان پائیدار دوستی اور اعتماد کی ہمیشہ خواہاں رہی ہے۔ان کے بقول سرحدوں پر تنائو اور جھڑپوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے جموں و کشمیر کے عوام ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خونریزی کا یہ انتہائی ناپسندیدہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.