کسان-حکومت مذاکرہ پھر ناکام

کسان-حکومت مذاکرہ پھر ناکام

 کسان لیڈر بلونت سنگھ نے کاغذ پر لکھا ’یا مریں گے، یا جیتیں گے‘، میٹنگ پھر بے نتیجہ ختم

ایک بار پھر مودی حکومت کے نمائندوں اور کسان لیڈروں کے درمیان مذاکرہ بے نتیجہ ثابت ہوا اور آئندہ ملاقات کی تاریخ 15 جنوری طے کر دی گئی۔ آج میٹنگ کے دوران کسان لیڈران انتہائی مایوس نظر آئے۔

وگیان بھون میں حکومت اور کسان لیڈران مذاکرات کرتے ہوئے / تصویر یو این آئی
وگیان بھون میں حکومت اور کسان لیڈران مذاکرات کرتے ہوئے / تصویر یو این آئی

متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف آج دوپہر شروع ہوئی مرکزی وزراء اور کسان لیڈروں کی میٹنگ 5 بجتے بجتے ختم ہو گئی۔ ایک بار پھر مودی حکومت کے نمائندوں اور کسان لیڈروں کے درمیان مذاکرہ بے نتیجہ ہی ثابت ہوا اور آئندہ ملاقات کی تاریخ 15 جنوری طے کر دی گئی۔ کسان تنظیموں کے لیڈران آج کی میٹنگ کے دوران انتہائی مایوس نظر آئے اور ایسی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ لنچ بریک کے دوران مرکزی وزراء تو میٹنگ ہال سے باہر نکلے، لیکن کسان لیڈران اندر ہی بیٹھے رہے۔ گویا کہ لنچ بریک میں مایوس کسان لیڈوں نے کچھ بھی نہ کھانے کا فیصلہ کیا۔

آج ہوئی میٹنگ کے دوران کسان لیڈر بلونت سنگھ نے زرعی قوانین کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک سخت نوٹ لکھ کر کسانوں کے عزائم کا اظہار بھی کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ میٹنگ کے دوران بلونت سنگھ بہرامکے نے کاغذ پر بڑے بڑے حروف میں لکھا ’یا مریں گے، یا جیتیں گے‘۔ پنجابی زبان میں لکھے گئے یہ الفاظ ظاہر کر رہے ہیں کہ کسان اپنے مطالبات کو لے کر پرعزم ہیں اور وہ قانون واپسی سے کم میں ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن دوسری طرف مرکز کی مودی حکومت بھی قانون واپسی کے لیے تیار نظر نہیں آ رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کے نمائندوں نے کسان تنظیموں کے سامنے قانون واپسی سے ہٹ کر کوئی تجویز پیش کرنے کے لیے کہا، لیکن کسان لیڈروں نے اسے مسترد کر دیا۔

میٹنگ ختم ہونے کے بعد کسان لیڈروں نے حکومت کے اس رویے پر انتہائی مایوسی کا اظہار کیا کہ بار بار ہو رہی میٹنگوں کے باوجود کسانوں کے اہم مطالبات پر مرکزی وزراء توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ میٹنگ کے بعد اکھل بھارتیہ کسان سبھا کے جنرل سکریٹری حنان مولانے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت نے ہمیں کہا کہ عدالت میں چلو۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ یہ نئے زرعی قوانین غیر قانونی ہیں۔ ہم اس کے خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت اسے واپس لے۔ ہم عدالت نہیں جائیں گے اور احتجاجی مظاہرہ جاری رکھیں گے۔‘‘ ایک دیگر کسان لیڈر نے کہا کہ ’’15 جنوری کو حکومت کے ذریعہ پھر سے میٹنگ طلب کی گئی ہے۔ حکومت قوانین میں ترمیم کی بات کر رہی ہے، لیکن ہم قانون واپس لینے کے علاوہ کچھ بھی قبول نہیں کریں گے۔‘‘

بھارتیہ کسان یونین کے قومی ترجمان راکیش ٹکیت کا بیان بھی سامنے آیا ہے جنھوں نے میٹنگ میں حکومت کے ضدی رویہ پر مایوسی کا اظہار کیا۔ انھوں نے میڈیا کے سامنے کہا کہ ’’تاریخ پر تاریخ چل رہی ہے۔ میٹنگ میں سبھی کسان لیڈروں نے ایک آواز میں بل رد کرنے کا مطالبہ کیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ بل واپس ہو، حکومت چاہتی ہے ترمیم ہو۔ حکومت نے ہماری بات نہیں مانی تو ہم نے بھی حکومت کی بات نہیں مانی۔‘‘

مذاکرہ بے نتیجہ ختم ہونے کے بعد مرکزی وزیر مالیات نریندر سنگھ تومر کا بیان بھی سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’آج کسان یونین کے ساتھ تینوں زرعی قوانین پر تبادلہ خیال ہوتا رہا، لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ قوانین کو واپس لینے کے علاوہ کوئی متبادل دیا جائے، لیکن کوئی متبادل نہیں پیش کیا گیا۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’کسان یونین اور حکومت دونوں نے 15 جنوری کو دوپہر 12 بجے ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ 15 جنوری کو کوئی حل نکل جائے گا۔‘‘

واضح رہے کہ گزشتہ سال 26 نومبر سے ہی کسان بڑی تعداد میں دہلی بارڈرس پر احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں اور ان کی تعداد دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ان کسانوں کا مطالبہ ہے کہ تین نئے زرعی قوانین جو مرکز کی مودی حکومت نے پاس کرائے ہیں انھیں واپس لیا جائے کیونکہ یہ آگے چل کر کسانوں کے لیے مضر اور سرمایہ داروں کے لیے مفید ثابت ہوگا۔ ساتھ ہی کسانوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ایم ایس پی کو لے کر قانون بنایا جائے تاکہ ایم ایس پی سے کم قیمت پر اناج کی خریداری نہ ہو سکے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.