بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
8.1 C
Srinagar

پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں’جہادی تنظیموں‘ کے دفاتر سیل

سرینگر:حکومت پاکستان نے ایک غیر معمولی فیصلے کے تحت پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں جہادی تنظیموں کے دفاتر سربمہر کردئے جبکہ 3دہائیوں کی مسلح تحریک کے دوران یہ پہلی مرتبہ ہے کہ حکومت پاکستان نے ان تنظیموں کو اخراجات کی مد میں ملنے والی رقم بھی روک دی۔پاکستانی میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں 12کشمیری تنظیمیں جو متحدہ جہاد کونسل سے وابستہ تھیں، ان سب کے دفاتر سربمہر کر دیے گئے ہیں اور حکومت پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کو شادی اور کاروبار وغیرہ کیلئے دی جانے والی طے شدہ امداد بھی بند کر دی ہے۔کشمیر کی مسلح تحریک کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے کشمیری تنظیموں کو دفتری اخراجات کی مد میں دی جانے والی رقم بھی بند کر دی گئی ہے۔ پرویز مشرف دور میں بھی ایسے اقدامات کئے گئے لیکن ’ایف اے ٹی ایف‘ کے مطالبہ پر حکومت پاکستان کی جانب سے حالیہ اقدامات انتہائی سخت نوعیت کے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستانی میڈیا کے ایک ادارے سے بات کرتے ہوئے متحدہ جہاد کونسل کے ایک عہدیدار نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ مقامی پولیس نے مجسٹریٹ کے موجودگی میںا ن کے تمام دفاتر سیل کئے ہیں۔ان کا کہناتھا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دفاتر پر تالے لگے ہیں اور اب یہاں ہو کا عالم ہے جبکہ دفاتر کی نگرانی بھی سخت کر دی گئی ہے تاکہ یہ دوبارہ نہ کھل سکیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مظفر آباد میں مذکورہ کشمیری تنظیموں کیلئے ہر طرح کے اجتماع پر پابندی لگا دی گئی ہے اور ان تنظیموں سے وابستہ کارکنان گھروں میں ہی رہنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق متحدہ جہاد کونسل کے عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ رواں سال مارچ میں ہی تمام تنظیموں کے اخراجات بند کر دیے تھے جس پر انہیں سخت مشکل کا سامنا تھا تاہم اب دفاتر ہی سیل کر دیے گئے ہیں اور دفتر ی و انتظامی اخراجات کی مد یعنی مکان کا کرایہ، بجلی، گیس اور ٹیلیفون بلوں کی مدمیں جو امداد مل جاتی تھی وہ مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ وادی کشمیرمیں برسرِ پیکار عسکری تنظیموں کے اتحاد ’متحدہ جہاد کونسل‘ میں شامل تمام 12 تنظیموں کے دفاتر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں سربمہر کر دیے گئے ہیں۔پلوامہ حملے کے تناظر میں بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد3دہائیوںکی مسلح تحریک کے دوران یہ پہلی مرتبہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے دفتری اخراجات کی مد میں دی جانے والی رقم مکمل طور پر روکتے ہوئے ان تنظیموں کے دفاتر بند کر دیے ہیں۔اسلام آباد میں سرکاری ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ا یک پاکستانی میڈیا ادارے کو بتایا کہ تمام دفاتر سکیورٹی اداروں نے سیل کیے جبکہ امداد حکومتِ پاکستان نے بند کی۔رپورٹ کے مطابق، ان تنظیموں کی تمام ’سہولیات‘ دنیا میں دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے لیے رقوم کی ترسیل بند کرنے کے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی وجہ سے بند کی گئی ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومتی عہدیدار اس صورت حال پر خاموش ہیں البتہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین خان محسود نے چند ہفتے قبل ایک اخباری کانفرنس میں کہا تھا کہ جن کالعدم تنظیموںکے خلاف پاکستان میں کارروائی ہو رہی ہے، اگر وہ اس خطے میں موجود ہیں تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق دوسری جانب کشمیری عسکری تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کے ان تازہ اقدامات سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ اب وہ کسی بھی صورت کشمیر کی مسلح تحریک کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ حکومت پاکستان کا مقصد ہوسکتا ہی کہ وہ ہندوستان کی تشویش کم کرے تاکہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کم ہو اور بات چیت شروع ہو سکے۔کشمیری عسکریت پسند تنظیموں کا کہنا ہے کہ سنہ 2002 میں پاکستان کے ا±س وقت کے سربراہ صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں برسرِپیکار پاکستانی اور کشمیری عسکری تنظیموں پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کی تھیں جن میں وادی میں سرگرمیوں کے لیے پیسے بند کرنا اور لائن آف کنٹرول کے آر پار جانے پر پابندی لگانا شامل تھیں۔ مشرف کے دورِ حکومت میں ان تنظیموں کی مالی مدد بند کردی گئی تھی جو کبھی بھی بحال نہیں ہوئی۔ سنہ 2012 کے اوائل میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان دفاتر پر اٹھنے والے اخراجات کے لیے دی جانے والی رقم میں 50 فیصد کمی کر دی تھی۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت نے کشمیری عسکریت پسندوں کی بحالی کے لیے دی جانے والی امداد بھی روک دی تھی۔اس مرتبہ دفاتر کے علاوہ انتظامی اخراجات بھی مکمل طور پر بند کردیے گئے ہیں اور یہ مرحلہ وار ہوا ہے۔اس پالیسی کا آغاز پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ہوا تھا، جس کے تحت کشمیری عسکریت پسندوں کو شادی کے لیے 50 ہزار دوپے دیے جاتے تھے اور اتنی ہی رقم کاروبار شروع کرنے کے لیے بھی دی جاتی تھی۔اس پالیسی کا مقصد بظاہر کشمیری عسکریت پسندوں کو پ±ر امن زندگی شروع کرنے کے لیے موقع فراہم کرنا تھا، تاہم عسکری تنظیموں کے ذرائع سے گفتگو کے بعد یہ معلوم ہوا کہ عسکریت پسندوں کو ماہانہ جو 10 ہزار روپے دیے جاتے ہیں، وہ بدستور دیے جا رہے تھے۔متحدہ جہاد کونسل 12 کشمیری تنظیموں پر مشتمل اتحاد ہے اور اس میں کوئی پاکستانی تنظیم شامل نہیں ہے۔ ان میں حزب المجاہدین ہی واحد ایسی تنظیم ہے جو اب بھی ایک موثر تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ بھارت پاکستان پر الزام لگاتا رہا ہے کہ وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں شورش کو ہوا دے رہا ہے لیکن پاکستان نے ہمیشہ اس کی تردید کی ہے اور اس کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ بھارت سے آزادی کے خواہاں لوگوں کی صرف اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد کرتا رہا ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img