ہفتہ, جولائی ۵, ۲۰۲۵
34.6 C
Srinagar

کشمیر تا دلی جموں وکشمیر کی منفرد حیثیت پر سیاسی تکرار

ایشین میل نیوز ڈیسک

’1953کی پوزیشن ہماری منزل ‘ : ڈاکٹر فاروق عبداللہ

سرینگرنیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہاہے کہ جموں و کشمیر کی سرزمین کے مالک یہاں کے لوگ ہیں اور کسی کو بھی ریاست کی آئینی حیثیت کیساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ انہوں نے کہاکہ جموں وکشمیر کے عوام کو ایسے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہوگا جو پارلیمنٹ میں اُن طاقتوں کو للکاریں جو ریاست کو حاصل خصوصی مراعات کو زک پہنچانے کی مذموم کوششیں کررہے ہیں۔

ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بیروہ میں چناﺅ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”آج ہندوستان میںوہ سرکار ہے جو انسانوں کو مذہب کے نام پر بانٹ رہی ہے اور کوشش کررہی ہے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو الگ الگ کھڑا کیا جائے۔آج ہماری لڑائی اُنہی عناصر کیخلاف ہے جو ملک میں بے چینی پیدا کرنا چاہتے۔“

انہوں نے کہا کہ جب ہندوستان آزاد ہوا تو اس میں ہر کسی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو برابر حقوق ملے لیکن آج ان حقوق پر شب خون مارا جارہا ہے، اقلیتوں کو پشت بہ دیوار کیا جارہا ہے۔ اسی آئین میں ایسی چیزین بھی رکھی گئیں جس سے ہماری ریاست کے تشخص کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ لیکن بعد میں ریاست کی خصوصی پوزیشن کو دھیرے دھیرے کمزور کیا گیا، اس عمل میں مقامی لیڈران نے بھی مکمل تعاون دیا اور ان لیڈران نے یہ تعاون لوگوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفادات کیلئے فراہم کیا۔

ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ اب خصوصی پوزیشن میں جو کچھ بچا ہے ہمیں اُس کی حفاظت کرنی ہے اور ہماری منزل 1953کی پوزیشن کو بحال کرانا ہے۔ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے جب 1975میں حکومت سنبھالی تو اندرا گاندھی کی اسی یقین دہانی پر سنبھالی کہ ہم 1953کی پوزیشن پر واپس جائیں گے۔

’علیحدہ وزیراعظم ناقابل قبول ‘:امت شاہ

بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر امت شاہ نے کہا کہ ان کی جماعت کسی بھی صورت میں جموں وکشمیر میں وزیر اعظم کے عہدے کی بحالی اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس ایکٹ کی منسوخی کی اجازت نہیں دے گی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت جموں وکشمیر کو ہندوستان سے الگ نہیں کرسکتی۔ امت شاہ نے کہا کہ بی جے پی چٹان کی مانند فوج کے ساتھ کھڑی ہے اور پاکستان کی ہر ایک گولی کا جواب گولے سے دیا جائے گا۔

انہوں نے کانگریس، نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی پر جموں اور لداخ کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھنے کا الزام بھی عائد کردیا۔ امت شاہ بدھ کے روز ادھم پور کے دومیل اور راجوری کے سندر بنی میں خطہ جموں کی دو پارلیمانی نشستوں کے بھاجپا امیدواروں ڈاکٹر جتیندر سنگھ اور جگل کشور شرما کے حق میں انتخابی ریلیوں سے خطاب کررہے تھے۔ بی جے پی صدر نے اپنے خطاب کے دوران ’جہاں ہوئے بلیدان مکھرجی وہ کشمیر ہمارا ہے‘ جیسے نعرے لگوائے۔

انہوں نے کہا ’یہ عمر عبداللہ جی جن کو سب وراثت میں مل گیا ہے، وہ کہنے لگے ہیں کہ مودی جی 35 اے کو مت چھوئیے ورنہ جموں وکشمیر میں ایک اور وزیر اعظم بنانا پڑے گا۔ کیوں بھئی آپ بناﺅگے کیا؟ آپ بناﺅ گے اور ہم خاموش بیٹھیں رہیں گے؟ عمر عبداللہ کان کھول کر سن لو ۔۔۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار ہے۔ اگر ہم اپوزیشن میں بھی ہوں گے، تو بھی جموں وکشمیر کو ہندوستان سے کوئی الگ نہیں کرسکتا۔ ہم اپنی جان پر کھیل کر جموں وکشمیر کو بچائیں گے‘۔

الحاق کی شرطوں کو ختم کیا گیا تو ریاست، بھارت سے علیحدہ ہوجائیگی :محبوبہ مفتی


پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ جس دن دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو ہٹایا گیا وہ دن جموں وکشمیر کی بھارت سے علاحدگی کا دن ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ الحاق کی شرطوں کو ختم کیا گیا تو ریاست کا بھارت سے رشتہ بھی ختم ہوگا۔

محبوبہ مفتی نے بدھ کے روز یہاں پارلیمانی حلقہ انتخاب اننت ناگ کے لئے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے بعد نامہ نگاروں کے سوال کہ ’بی جے پی صدر امت شاہ نے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے خاتمے کے لئے 2020 کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے‘ پر کہا: ’تو سمجھ لیجئے کہ جموں وکشمیر کا ملک سے علاحدگی کی بھی وہی ڈیڈ لائن ہے‘۔

انہوں نے کہا ’سنہ 2020 جموں وکشمیر کے لئے بھی ڈیڈ لائن ہوگی۔ اگر الحاق کی شرطوں کو ختم کیا گیا تو جموں وکشمیر کا ملک سے رشتہ بھی ختم ہوگا۔ انہیں (امت شاہ کو) ایک بڑی جنگ کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ محبوبہ مفتی اس جنگ میں سب سے آگے ہوگی۔ دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے لئے پوری ریاست متحد ہے‘۔ پی ڈی پی صدر نے کہا کہ وہ اپنے والد مرحوم مفتی محمد سعید کے ادھورے خواب پورے کرنے کے لئے الیکشن لڑرہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’میرے الیکشن لڑنے کا مقصد مفتی صاحب کے ادھورے خواب پورا کرنا ہے۔ وہ جموں وکشمیر کو خون خرابے کے بھنور سے باہر نکالنا چاہتے تھے‘۔

انہوں نے کہا ’میں پہلی دفعہ اننت ناگ سے الیکشن نہیں لڑرہی ہوں۔ یہاں کے لوگ باشعور ہیں۔ چیزوں کو سمجھتے ہیں۔ انشاءاللہ پہلے کے مقابلے میں اس بار کے انتخابات بہت اچھے ہوں گے‘۔ محبوبہ مفتی نے کانگریس کے منشور میں جموں وکشمیر سے متعلق معاملات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ’پی ڈی پی اور بی جے پی کے ایجنڈا آف الائنس میں جو چیزیں شامل تھیں، مجھے خوشی ہے کہ کانگریس نے ان معاملات کو اپنے منشور میں شامل کیا ہے‘۔ یہ پوچھے جانے کہ ’ایجنڈا آف الائنس میں شامل ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا‘، تو ان کا کہنا تھا ’وزیر داخلہ نے کئی بار بات چیت کی پیشکش کی۔

دنیشور شرما کو نامزد کیا گیا۔ وزیر اعظم پاکستان چلے گئے مگر اس کے بعد بات چیت کا سلسلہ رک گیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اراکین پارلیمان کی ایک ٹیم نے حریت لیڈران کے دروازے کھٹکھٹائے تھے لیکن انہوں نے دروازے نہیں کھولے۔ اس میں میں کیا کرسکتی تھیں۔ ایک ماہ تک جنگ بندی کروائی، ملی ٹینوں نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا میں کیا کرسکتی ہوں؟ ‘۔

خصوصی پوزیشن کا مطالبہ نہیں کیاتھا: ڈاکٹر کرن سنگھ

جموں وکشمیر کو مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی بناءپر خصوصی درجہ عطا کرنے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے سینئر کانگریس لیڈر اور رکن پارلیمان ڈاکٹر کرن سنگھ نے کہا ہے کہ جموں کشمیر نے خصوصی پوزیشن کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ ریاست کوحکومت ہند نے از خود خصوصی پوزیشن عطا کی تھی۔

جموں و کشمیر کے آخری صدر ریاست اور آخری مہاراجہ ہری سنگھ کے فرزند ڈاکٹر کرن سنگھ نے انگریزی روز نامہ کے ساتھ ایک انٹریو میں کہا کہ جموں کشمیر کو حکومت ہند نے خصوصی درجہ عطا کیا تھا نہ یہ کہ ریاست نے خصوصی درجے کا مطالبہ کیا تھا۔انہوں نے کہا ’ایسا کچھ بھی نہیں تھا، ایسا نہیں ہے کہ ہم نے یہ کہا کہ ہم ایک مسلم اکثریتی ریاست ہیں لہذا ہمیں خصوصی درجہ دیا جانا چاہیے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت ہند نے ہمیں خصوصی پوزیشن عطا کی تھی، ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے۔

ڈاکٹر سنگھ، جنہوں نے بحیثیت صدر ریاست سال 1957 میں جموں و کشمیر کے آئین پر دستخط کئے تھے، نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح جموں کشمیر میں سال1947-48 میں الحاق کے بعد پاکستان سپانسرڈ جنگ، جو بین الااقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی، ریاست کے ہندوستان کے ساتھ انضمام میں آڑے آیا۔انہوں نے کہا کہ وہ الحاق نامہ جس پرمیرے والد مہاراجہ ہری سنگھ نے دستخط کئے تھے اور دیگر صوبائی ریاستوں کے الحاق نامے ایک جیسے تھے‘۔

سابق صدر ریاست نے کہا کہ پہلے الحاق ہوا اور بعد ازاں سردار پٹیل کا ریاستوں کو ملک کے ساتھ ضم کرنے کا رول ہے۔ پہلے الحاق ضروری تھا اور ہندوستان کے ساتھ انضمام دوسرا اقدام تھا۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق ہوا لیکن انضمام نہیں ہوا کیونکہ اُس وقت یہاں جنگ جاری تھا اور معاملہ اقوام متحدہ میں تھا وہ تمام نوعیت کے قراردادیں منظور کررہے تھے اور آس وقت انضمام کا سوال ہی نہیں اٹھا۔

ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ درحقیقت اُسی وقت جموں کشمیر کو خصوصی درجہ عطا کیا گیا تھا اور دفعہ370 کو آئین میں شامل کیا گیا تھا کیونکہ ریاست کا ملک کے ساتھ رشتہ کو یقینی بنانے کے لئے انضمام نہیں ہوا تھا۔آئین ہند میں دفعہ370 کے اندارج کو غلطی قرار دینے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے ڈاکٹر سنگھ نے کہا’یہ کوئی غلطی نہیں تھی بلکہ یہ ایک تاریخی عمل تھا، جموں کشمیر میں صورتحال نار مل نہیں تھی بلکہ نصف ریاست پر اُن (پاکستان) کا قبضہ تھا، یہ دوسری ریاستوں جیسی نہیں تھی ریاست کی خصوصی پوزیشن تھی۔

نریندرا مودی کشمیر میں اٹھنے والی الگ الگ آوازوں کے ذمہ دار :آزاد

راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے قائد اور سینئر کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کشمیر میں اٹھنے والی الگ الگ آوازوں کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالات ایسے پیدا کئے گئے جن کے تحت کشمیریوں کی آواز کو بند کیا گیا اورسیاسی لیڈروں کو پشت بہ دیوار کیا گیا۔

ان باتوں کا اظہار آزاد نے بدھ کے روز لولاب میں ایک انتخابی جلسے کے بعد نامہ نگاروں کے سوالوں کے جواب دینے کے دوران کیا۔انہوں نے کہا ’سب سے پہلے میں کہتا ہوں کہ وزیر اعظم کو اپنی زبان پر کنٹرول نہیں ہے، ان کے اپنے وزراءاور گورنر اپوزیشن، مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو کتنی گالیاں دیتے ہیں، پانچ برسوں کے دوران مسلمانوں اوراسلام کو کتنی گالیاں دی گئیں، کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا‘۔کانگریس کے انتخابی منشور، جو گذشتہ روز جاری کیا گیا، کے حوالے سے غلام نبی آزاد نے کہا کہ کانگریس کا یہ منشور ایک جامع اور ہمہ گیرمنشور ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے 35سالہ کیریر میں ایسا جامع منشور نہیں دیکھا ہے۔آزاد نے کہا’امسال سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم کی سربراہی میں آٹھ ماہ پہلے بیس لیڈروں پرمشتمل ایک منشور کمیٹی تشکیل دی گئی، یہ کمیٹی چھ ماہ تک ملک بھر میں گھومی اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ملنے کے بعد یہ منشور بنایا گیا‘۔

الیکشن منشور میں افسپا پر نظر ثانی کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا’جب جموں کشمیرمیں ہماری اور نیشنل کانفرنس کی مخلوط حکومت تھی تو ایک وقت ایسا آیا تھا کہ اس کو کچھ ضلعوں سے ہٹایا جائے کیونکہ حالات تیزی سے ٹھیک ہورہے تھے اور ملی ٹینسی عروج سے زیرو پر آرہی تھی لیکن اب اس کا دوبارہ عروج ہے‘۔علاحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے آزاد نے کہا کہ مذاکرات کاروں سے نہ ملنا علاحدگی پسندوں کی ہار ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img