قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۱۲

قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۱۲
(ان کی زبان پر ہے) اطاعت کا اقرا ر اور اچھی اچھی  باتیں۔ مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اس وقت وہ اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلتے تو انہی کے لئے اچھا تھا۔ اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے (۱) تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے(۲)؟ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنا دیا۔ کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا۔ بادلوں پر ان کے لیے شیطان نے اس روش کو سہل بنا دیا ہے اور جھوٹی توقعات کا سلسلہ ان کے لیے دراز کر رکھا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اللہ کے نازل کردہ دین کو ناپسند کرنے والوں سے کہہ دیا کہ بعض معاملات میں ہم تمہاری مانیں گے(۴)۔ اللہ ان کی یہ خفیہ باتیں خوب جانتا ہے۔ پھر اس وقت کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے (۵)؟ یہ اسی لیے تو  ہو گا کہ انہوں نے اس طریقے کی پیروی کی جو اللہ کو ناراض کرنے والا ہے۔ اور اس کی رضا کا راستہ اختیار کرنا پسند نہ کیا۔ اسی بنا پراس کے سب اعمال ضائع کر دیے۔(۶

سورہ محمد:۲۱۔۲۸

۔۔۔۔۔۔۱۔۔۔۔۔۔
۔ اصل الفاظ ہیں اِنْ تَوَلَّیْتُمْ۔ان کا ایک ترجمہ وہ ہے جو ہم نے اوپر متن میں کیا ہے۔ اور دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اگر تم لوگوں کے حاکم بن گئے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔۔۔
۔ اس ارشاد کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر اس وقت تم اسلام کی مدافعت سے جی چراتے ہو اور اس عظیم الشان اصلاحی انقلاب کے لیے جان و مال کی بازی لگانے سے منہ موڑتے ہو جس کی کوشش محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل ایمان کر رہے ہیں، تو اس کا نتیجہ آخر اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ تم پھر اسی جاہلیت کے نظام کی طرف پلٹ جاؤ جس میں تم لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے ہو، اپنی اولاد تک کو زندہ دفن کرتے رہے ہو، اور خدا کی زمین کو ظلم و فساد سے بھتے رہے ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری سیرت و کردار کا حال یہ ہے کہ جس دین پر ایمان لانے کا تم نے اقرار کیا تھا اس کے لیے تمہارے اندر کوئی اخلاص اور کوئی وفاداری نہیں ہے، اور اس کی خاطر کوئی قربانی دینے کے لیے تم تیار نہیں ہو، تو اس اخلاقی حالت کے ساتھ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں اقتدار عطا کر دے اور دنیا کے معاملات کی باگیں تمہارے ہاتھ میں آ جائیں تو تم سے ظلم و فساد اور برادر کشی کے سوا اور کس چیز کی توقع کی جا سکتی ہے۔
یہ آیت اس امر کی صراحت کرتی ہے کہ اسلام میں قطع رحمی حرام ہے۔ دوسری طرف مثبت طریقہ سے بھی قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کو بڑی نیکیوں میں شمار کیا گیا ہے اور صلح رحمی کا حکم دیا گیا ہے۔(مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ،۸۳۔۱۷۷۔ النساء، ۸ ۳۶۔ النحل، ۹۰۔ بنی اسرائیل، ۲۶۔ النور، ۲۲۔ رحم کا لفظ عربی زبان میں قرابت اور رشتہ داری کے لیے استعارہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ایک شخص کے تمام رشتہ دار، خواہ وہ دور کے ہو یا قریب کے، اس کے ذوی الارحام  ہیں۔ جس سے جتنا زیادہ قریب کا رشتہ ہو اس کا حق آدمی پر اتنا ہی زیادہ ہے اور اس سے قطع رحمی کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔ صلہ رحمی یہ ہے کہ اپنے رشتہ دار کے ساتھ جو نیکی کرنا بھی آدمی کی استطاعت میں ہو اس سے دریغ نہ کرے۔ اور قطع رحمی یہ ہے کہ آدمی اس کے ساتھ برا سلوک کرے، یا جو بھلائی کرنا اس کے لیے ممکن ہو اس سے قصداً پہلو تہی کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی آیت سے استدلال کر کے ام ولد کی بیع کو حرام قرار دیا تھا اور صحابہ کرام نے اس سے اتفاق فرمایا تھا۔ حاکم نے مسدرک میں حضرت بردیہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک روز میں حضرت عمرؓ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ یکایک محلہ میں شور مچ گیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لونڈی فروخت کی جا رہی ہے اور اس کی لڑکی رو رہی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اسی وقت انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ جو دین محمد صلی اللہ علیہ و سلم لائے ہیں کیا اس میں آپ حضرات کو قطع رحمی کا بھی کوئی جواز ملتا ہے؟ سب نے کہا نہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا پھر یہ کیا بات ہے کہ آپ کے ہاں ماں کو بیٹی سے جدا کیا جا رہا ہے؟ اس سے بڑی قطع رحمی اور کیا ہو سکتی ہے؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ لوگوں نے کہا آپ کی رائے میں اس کو روکنے کے لیے جو صورت مناسب ہو وہ اختیار فرمائیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے تمام بلادِ اسلامیہ کے لیے یہ فرمان جاری کر دیا کہ کسی ایسی لونڈی کو فروخت نہ کیا جائے جس سے اس کے مالک کے ہاں اولاد پیدا ہو چکی ہو، کیونکہ یہ قطع رحمی ہے اور یہ حلال نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ یعنی یا تو یہ لوگ قرآن مجید پر غور نہیں کرتے، یا غور کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر اس کی تعلیمات اور اس کے معانی و مطالب ان کے دلوں میں اترتے نہیں ہیں کیونکہ ان کے دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں جو ایسے حق نا شناس دلوں کے لیے مخصوص ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۴۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ یعنی ایمان کا اقرار کرنے اور مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو جانے کے باوجود وہ اندر ہی اندر دشمنان اسلام سے ساز باز کرتے رہے اور ان سے وعدے کرتے رہے کہ بعض معاملات میں ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۵۔۔۔۔۔۔۔
۔ یعنی دنیا میں تو یہ طرز عمل انہوں نے اس لیے اختیار کر لیا کہ اپنے مفادات کی حفاظت کرتے رہیں اور کفر و اسلام کی جنگ کے خطرات سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں، لیکن مرنے کے بعد یہ خدا کی گرفت  سے بچ کر کہاں جائیں گے؟ اس وقت تو ان کی کوئی تدبیر فرشتوں کی مار سے ان کو نہ بچا سکے گی۔
یہ آیت بھی ان آیات میں سے ہے جو عذاب برزخ (یعنی عذاب قبر) کی تصریح کرتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت ہی کفار و منافقین پر عذاب شروع ہو جاتا ہے، اور یہ عذاب اس سزا سے مختلف چیز ہے جو قیامت میں ان کے مقدمے کا فیصلہ ہونے کے بعد ان کو دی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۶۔۔۔۔۔۔۔
۔ اعمال سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو مسلمان بن کر وہ انجام دیتے رہے۔ ان کی نمازیں، ان کے روزے، ان کی زکوٰۃ، غرض وہ تمام عبادتیں اور وہ ساری نیکیاں جو اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے اعمال خیر میں شمار ہوتے تھیں اس بنا پر ضائع ہو گئیں کہ انہوں نے مسلمان ہوتے ہوئے بھی اللہ اور اس کے دین اور ملت اسلامیہ کے ساتھ اخلاص و وفاداری کا رویہ اختیار نہ کی، بلکہ محض اپنے دنیوی مفاد کے لیے دشمنان دین کے ساتھ ساز باز کرتے رہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کا موقع آتے ہیں اپنے آپ کو خطرات سے بچانے کی فکر میں لگ گئے۔
یہ آیات اس معاملہ میں بالکل ناطق ہیں کہ کفر و اسلام کی جنگ میں جس شخص کی ہمدردیاں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نہ ہوں، یا کفر اور کفار کے ساتھ ہوں، اس کا ایمان ہی سرے سے معتبر نہیں ہے کجا کہ اس کا کوئی عمل خدا کے ہاں مقبول ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.