قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۹

قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۹

اے نبیؐ، کتنی ہی بستیاں ایسی گزر چکی ہیں جو تمہاری اس بستی سے بہت زیادہ زور آور تھیں جس نے تمہیں نکال دیا ہے۔ انہیں ہم نے اس طرح ہلاک کر دیا کہ کوئی ان کا بچانے والا نہ تھا(۱)۔ بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف و صریح ہدایت پر ہو، وہ ان لوگوں کی طرح ہو جائے جن کے لیے ان کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیرو بن گیے ہیں (۲)؟ پرہیز گاروں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی (۳)، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ  کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہو گا(۴)، ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لیے لذیذ  ہو گی(۵)، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی(۶)۔ اس میں ان کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش۔۔۷۔۔۔۔ (کیا وہ شخص جس کے حصہ میں یہ جنت آنے والی ہے) ان لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے جو جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں گی کاٹ دے گا؟

محمد۔۔۔۱۳تا۱۵

۱۸۔۔۔۔۔۔۔
۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ سے نکلنے رنج تھا۔ جب آپ ہجرت پر مجبور ہوئے تو شہر سے باہر نکل کر آپ نے اس کی طرف رخ کر کے فرمایا تھا ’’سے مکہ، تو دنیا کے تمام شہروں میں خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اور خدا کے تمام شہروں میں مجھے سب سے بڑھ کر تجھ سے محبت ہے،۔ اگر مشرکوں نے مجھے نہ نکالا تو میں تجھے چھوڑ کر کبھی نہ نکلتا‘‘۔ اسی پر ارشاد ہو ہے کہ اہل مکہ تمہیں نکال کر اپنی جگہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ حالانکہ در حقیقت یہ حرکت کر کے انہوں نے اپنی شامت بلائی ہے۔ آیت کا انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ ضرور ہجرت سے متصل ہی نازل ہوئی ہو گی۔

۔۔۔۔۔۱۹۔۔۔۔۔

۔ یعنی آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اور اس کے پیروؤں کو جب خدا کی طرف سے ایک صاف اور سیدھا راستہ مل گیا ہے اور پوری بصیرت کی روشنی میں وہ اس پر قائم ہو چکے ہیں، تو اب وہ ان لوگوں کے ساتھ چل سکیں جو اپنی پرانی جاہلیت ساتھ چمٹے ہوئے ہیں، جو اپنی ضلالتوں کو ہدایت اور اپنی بد کرداریوں کو خوبی سمجھ رہے ہیں، جو کسی دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ محض اپنی خواہشات کی بنا پر یہ فیصلے کرتے ہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ اب تو نہ اس دنیا میں ان دونوں گروہوں کی زندگی ایک جیسی ہو سکتی ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام یکساں ہو سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۲۰۔۔۔۔۔۔۔

۲۰۔ اصل الفاظ ہیں مَاءٍ غیر اٰسنٍ۔ آسِن اس پانی کو کہتے ہیں جس کا مزا اور رنگ بدلا ہوا ہو، یا جس میں کسی طرح کی بو پیدا ہو گئی ہو۔ دنیا میں دریاؤں اور نہروں کے پانی عموماً گدلے ہوتے ہیں ان کے ساتھ ریت، مٹی اور بسا اوقات طرح طرح کی نباتات کے مل جانے سے ان کا رنگ اور مزا بدل جاتا ہے۔ اور کچھ نہ کچھ بو بھی ان میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے جنت کے دریاؤں اور نہروں کے پانی کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ وہ غیر آسن ہو گا۔ یعنی وہ خلاص، صاف ستھرا پانی ہو گا کسی قسم کی آمیزش اس میں ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۲۱۔۔۔۔۔۔۔

۲۱۔ حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ ’’وہ جانوروں کے تھنوں سے نکلا ہوا دودھ نہ ہو گا‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ یہ دودھ چشموں کی شکل میں زمین سے نکالے گا اور نہروں کی شکل میں سے بہا دے گا۔ ایسا نہ ہو گا کہ جانوروں کے تھنوں سے اس کو نچوڑا جائے اور پھر جنت کی نہروں میں ڈال دیا جائے۔ اس قدرتی دودھ کی تعریف میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’اس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہو گا،‘‘ یعنی اس کے اندر وہ ذرا سی بِساند بھی نہ ہو گی جو جانور کے تھن سے نکلے ہوئے ہر دودھ میں ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۲۔ حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ اس شراب کو ’’انسانوں نے اپنے قدموں سے روند کر نہ نچوڑا ہو گا‘‘۔ یعنی وہ دنیا کی شرابوں کی طرح پھلوں کو سڑا کر اور قدموں سے روند کر کشید کی ہوئی نہ ہو گی، بلکہ اللہ تعالیٰ اسے بھی چشموں کی شکل میں پیدا کرے گا اور نہروں کی شکل میں بہا دے گا۔ پھر اس کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’وہ پینے والوں کے لیے لذیذ ہو گی‘‘، یعنی دنیا کی شرابوں کی طرح وہ تلخ اور بو دار نہ ہو گی جسے کوئی بڑے سے بڑا شراب کا رسیا بھی کچھ نہ کچھ منہ بنائے بغیر نہیں پی سکتا۔ سورہ صافات میں اس کی مزید تعریف یہ کی گئی ہے کہ اس کے پینے سے نہ جسم کو کوئی ضرر ہو گا نہ عقل خراب ہو گی (آیت ۴۷)، اور سورہ واقعہ میں فرمایا گیا ہے کہ اس سے نہ دوران سر لاحق ہو گا نہ آدمی بہکے گا(آیت ۱۹)۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ شراب نشہ آور نہ ہو گی بلکہ محض لذت و سرور بخشنے والی ہو گی۔

۔۔۔۔۔۲۳۔۔۔۔۔۔

۲۳۔ حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ ’’وہ مکھیوں کے پیٹ سے نکلا ہوا شہد نہ ہو گا‘‘۔ یعنی وہ بھی چشموں سے نکلے گا اور نہروں میں بہے گا۔ اسی لیے اس کے اندر موم اور چھتے کے ٹکڑے اور مری ہوئی مکھیوں کی ٹانگیں ملی ہوئی نہ ہوں گی، بلکہ ہو خالص شہد ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۔ جنت کی ان نعمتوں کے بعد اللہ کی طرف سے مغفرت کا ذکر کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان ساری نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرما دے گا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو کوتاہیاں ان سے ہوئی تھیں ان کا ذکر تک جنت میں کبھی ان کے سامنے نہ آئے گا بلکہ اللہ تعالیٰ ان پر ہمیشہ کے لیے پردہ ڈال دے گا تا کہ جنت میں وہ شرمندہ نہ ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.