قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۸

قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۸

گذشتہ سے پیوستہ

اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی  مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا ۔اور تمہارے قدم مظبوط جمادے گا۔۔۔۔۔ محمد:۷

تشریح: اللہ کی مدد کرنے کا ایک سیدھا سادھا مفہوم تو یہ ہے کہ اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے جان و مال سے جہاد کیا جائے۔ لیکن  اس کا ایک غامض مفہوم بھی ہے جس کی ہم اس سے پہلے تشریح کر چکے ہیں (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، تفسیر آل عمران، حاشیہ 50)

 رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے، تو ان کے لیے ہلاکت ہے اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد:۸

تشریح: اصل الفاظ ہیں فَتَعْساً لَّھُمْ۔ تعس ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرنے کو کہتے ہیں۔

کیونکہ انہوں نے اس چیز کو نا پسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے، لہٰذا  اللہ نے ان  کے اعمال ضائع کر دیے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد:۹

تشریح: یعنی انہوں نے اپنی پرانی جاہلیت کے اوہام و تخیلات اور رسم و رواج اور اخلاقی بگاڑ کو ترجیح دی اور اس تعلیم کو پسند نہ کیا جو اللہ نے ان کو سیدھا راستہ بتانے کے لیے نازل کی تھی۔

کیا وہ زمین میں چلنے پھر ے نہ تھےکہ ان لوگوں کا انجام دیکھتے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ اللہ نے کا سب کچھ ان پر الٹ دیا، اور ایسے ہی نتائج ان کافروں کے لیے مقدر ہیں۔۔۔۔۔محمد:۱۰

تشریح: ا س فقرے کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جس تباہی سے وہ کافر دوچار ہوئے  ویسی ہی تباہی اب ان کافروں کے لیے مقدر ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو نہیں مان رہے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی تباہی صرف دنیا کے عذاب پر ختم نہیں ہو گئی ہے بلکہ یہی تباہی ان کے لیے آخرت میں بھی مقدر ہے۔

یہ اس لیے کہ ایمان لانے والوں کا حامی و ناصر اللہ ہے اور کافروں کا حامی و ناصر  کوئی نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد:۱۱

تشریح: جنگ احد میں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم زخمی ہو کر چند صحابہ کے ساتھ ایک گھاٹی میں ٹھیرے ہوئے تھے اس وقت ابوسفیان نے نعرہ لگایا :لنا عُزّیٰ وَلَا عُزّٰ ی لَکُمْ۔ ’’ہمارے پاس عزیٰ ہے اور تمہارا کوئی عزیٰ نہیں ہے‘‘۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا اسے جواب دو: اللہ مُولانا ولا مُوْلٰی لکم۔ ’’ہمارا حامی و ناصر اللہ ہے اور تمہارا حامی و ناصر کوئی نہیں‘‘۔ حضور کا یہ جواب اسی آیت سے ماخوذ تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.