انتخابات کا دوسرا مرحلہ 

  پارلیمانی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں جہاں ملک کی مختلف ریاستوں میں ۵۹ پارلیمانی حلقہ انتخابات کےلئے ووٹ ڈالے گئے وہیں ریاست کے ادھمپور اور سرینگر پارلیمانی نشتوں کےلئے بھی ووٹ ڈالے گئے۔ سرینگر پارلیمانی نشست کے انتخاب کے دوران اگر چہ شہر سرینگر کی نسبت گاندربل، کنگن اور بڈگام کے علاقوں میں اچھی خاصی پولنگ ہوئی تاہم مجموعی طور پولنگ کا یہ مرحلہ پر امن طریقے سے اختتام پذیر ہوا۔ چند ایک علاقوں کو چھوڑ کر کہیں پر بھی لوگ قطاروں میں نظر نہیں آئے جیسے کہ بارہمولہ پارلیمانی انتخابی حلقے میں لوگوں کا جوش و جذبہ دیکھنے کو ملا تھا اور لوگ قطاروں میں اپنی باری کا انتظار کرتے تھے۔ کل ملا کر یہی کہا جائے گا کہ اکثر سیاسی پارٹیوں کے چیدہ چیدہ ورکروں نے ہی ووٹ ڈالے جبکہ عام ووٹر گھروں سے باہر نکلنے میں یا تو خوف و ڈر محسوس کر رہے تھے یا پھر موجودہ سیاستدان اور پارٹیوں کے کام کاج یا پالسیوں سے ناخوش یا بدل دل ہو گئے ہیں۔ سال ۷۱۰۲ کے ضمنی انتخاب کے دوران ضلع بڈگام میں پُر تشدد واقعات رونما ہوئے۔ اس روز چاڈورہ اور بڈگام میں ۷ جوانوں کی موت واقع ہوئی تھی۔ جبکہ گاندربل میں بھی ایک نوجوان جاں بحق ہوا تھا۔ اسکے بر عکس اب کی بار فورسز نے بھی کوئی زیادتی نہیں کی اور نہ ہی مزاحمتی خیمے سے وابستہ کارکنوں نے کسی قسم کی مزاحمت کی۔ تاہم مشاہدے کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ اکثر پولنگ مراکز میں ووٹنگ مشینیں یا تو خراب تھیں یا پھر دیر سے شروع کی گئیں۔ جہاں تک ڈیوٹی پر مامور پولنگ عملے کا تعلق ہے وہ ہر جگہ نا خوش نظر آرہے تھے اکثر ملازمین کا کہنا تھا کہ عملے کی سہولیت کےلئے خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے گئے تھے۔ ضلع گاندربل کے زکورہ، پاندچھ اور گلاب باغ کے پولنگ مراکز پر لگ بھگ ۹ بجے پولنگ شروع کی گئی۔ پولنگ بوتھ نمبر ۹۰۱ نسیم باغ حبک پر ڈیوٹی انجام دینی والی خواتین ملازمین نے صاف طور پر کہا کہ انہیں خود ہی اسکول میں فرنیچر کا انتظام کرناپڑا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کی چیکنگ کےلئے بھی زنانہ پولیس کو تعینات نہیں رکھا گیا تھا جس وجہ سے عملے کو بھی پریشانیوں اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے یہ پولنگ مرکز خواتین ملازمین کےلئے مخصوص رکھا گیا تھا۔ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ سمیت ۲۱ امیدواروں کی قسمت مشینوں میں بند ہو گئی۔ کون امیدوار بازی مار گیا یہ ۳۲ مئی کو ہی ووٹ شماری کے بعد پتہ چلے گا۔ اگر واقعی طور ان انتخابات کو اسمبلی انتخابات کی پہلی مشق سے تعبیر کیا جا تا ہے جیسا کہ اکثر تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے تو پھر گورنر انتظامیہ اور انتخابی کمیشن کو اس حوالے سے سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہئے اور آنے والے اسمبلی انتخابات میں پولنگ عملے خاصکر خواتین ملازمین کےلئے مخصوص انتظامات کرنے ہونگے تاکہ وہ بغیر کسی پریشانی کے خوش دلی سے اپنا کام انجام دے سکےں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.