سری نگر،:آرٹیکل 370 کی منسوخی کے چھ سال پورے ہونے پر جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کی جانب سے سری نگر میں پرامن احتجاج کی کوشش کو پولیس نے ناکام بنا دیا۔ پارٹی کارکنوں کو دفتر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، جب کہ وادی کے دیگر اضلاع میں بھی کئی کانگریس رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کیا گیا۔
اس موقع پر کانگریس کے ریاستی صدر طارق حمید قرہ نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آج جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ ہمیں پرامن احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، حالانکہ جمہوریت میں ہر شہری کو اپنی آواز بلند کرنے کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ 5 اگست کو ریاست کے تمام 20 اضلاع میں خاموش احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے تاکہ حکومت کی توجہ جموں و کشمیر کے عوام کے آئینی اور جمہوری حقوق کی جانب مبذول کرائی جائے، لیکن اسے بھی روک دیا گیا۔
طارق قرہ نے کہا کہ پانچ اگست 2019 جموں و کشمیر کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ دن ہے، جس نے یہاں کے ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کے آئینی اور جمہوری حقوق کو پامال کیا۔ ریاستی درجہ چھین کر عوام کو ذہنی طور پر اس قدر دباؤ میں لایا گیا کہ آج لوگ اپنے ہی ملک میں دوسرے درجے کے شہری محسوس کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا ’آج کے دن جمہوریت کے ساتھ ایک ایسا ننگا ناچ کیا گیا کہ دنیا بھر کی جمہوری اقدار شرمسار ہیں۔ ہمیں اپنے ہی دفتر سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ باقی اضلاع میں بھی ہمارے قائدین کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے صرف پرامن احتجاج کا ارادہ ظاہر کیا تھا، لیکن ہمیں اپنے آئینی حق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ جمہوریت کا کھلا قتل ہے۔ ہم تمام ہندوستان کی سیول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور باشعور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جموں و کشمیر کے عوام پر ہونے والے ان مظالم کو دیکھیں اور ان کے حق میں آواز بلند کریں۔
طارق قرہ نے واضح کیا کہ ہم نے جو تحریک شروع کی ہے، وہ آئینی اور جمہوری دائرے میں ہے۔ حکومت کی سختیاں، دباؤ یا دھونس ہمیں اپنے مقصد سے نہیں ہٹا سکتی۔ ہم جموں و کشمیر کے عوام کے جائز اور قانونی حقوق کے لیے اپنی پرامن جدوجہد جاری رکھیں گے۔
جموں میں انوکھا اور علامتی احتجاج
جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دلانے کے مطالبے کے تعلق سے کانگریس پارٹی نے آج جموں میں ایک انوکھا اور علامتی احتجاج درج کیا، جس کے دوران پارٹی کے سینئر لیڈران چودھری لال سنگھ اور رمن بھلا ایک کرین پر چڑھ گئے اور ’ہماری ریاست، ہمارا حق‘ جیسے نعرے بلند کیے۔
احتجاج میں کانگریس کے دیگر سینئر رہنماؤں اور کارکنان نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی، جنہوں نے بی جے پی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ جموں و کشمیر کے عوام کو ان کے بنیادی سیاسی حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہے۔
نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر رہنماؤں نے کہا کہ 5 اگست 2019 کا دن جموں و کشمیر کی جدید سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، جب بی جے پی حکومت نے بغیر کسی عوامی مشاورت کے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس کا خصوصی آئینی درجہ چھین لیا۔
رہنماؤں نے کہا کہ ریاستی درجہ عوام کا جمہوری حق ہے اور اس کی بحالی میں مزید تاخیر ناقابل قبول ہے۔
چودھری لال سنگھ نے زور دے کر کہا کہ ریاستی درجہ صرف ایک آئینی شناخت ہی نہیں بلکہ یہاں کے عوامی جذبات سے جڑا مسئلہ ہے۔ بی جے پی نے جو وعدے کئے تھے، وہ اب تک کاغذی ثابت ہو رہے ہیں۔ ہمیں ہمارے حقوق واپس چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ مرکز اگر واقعی جموں و کشمیر کی ترقی اور امن چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے عوامی حکومت کو بحال کرنا ہوگا۔
کانگریس لیڈروں نے بی جے پی پر الزام لگایا کہ وہ جموں و کشمیر کے ساتھ سوتیلا سلوک کر رہی ہے اور صرف انتخابات جیتنے کے لیے خطے کے ساتھ سیاسی چالیں چل رہی ہے۔
کانگریس پارٹی نے عزم ظاہر کیا کہ ریاستی درجے کی بحالی اور جمہوریت کے مکمل احیاء تک ان کی جدوجہد جاری رہے گی اور اس مقصد کے لیے وہ عوامی حمایت حاصل کرتے رہیں گے۔