جمعہ, مئی ۳۰, ۲۰۲۵
22.5 C
Srinagar

سیاحت پر پہلگام کا زخم ۔۔۔۔۔۔

پہلگام میں پیش آنے والا دہشت گردانہ حملہ جہاں انسانی المیہ ہے، وہیں اس نے وادی کشمیر کے سب سے حساس اور نازک شعبے سیاحت کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پچیس سیاحوں اور ایک مقامی پونی والا کی جان لینا صرف ایک سانحہ نہیں، بلکہ اس نے اس وادی کے معاشی تانے بانے کو تار تار کر دیا ہے۔ہوٹل ویران ہیں، شکارے خالی پڑے ہیں، گائیڈز اور ڈرائیور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیںاور بازاروں میں ایک سنّاٹا ہے جو صرف سیاحوں کی غیر موجودگی سے نہیں، بلکہ امید کے رخصت ہو جانے سے پیدا ہوا ہے۔ یہ صرف ایک علاقہ نہیں، ایک پوری تہذیب، ایک مہمان نواز تمدن، ایک معاشی دھارا خاموش ہو چکا ہے۔یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ وادی میں سیاحت پر دہشت کی پرچھائیاں گری ہوں۔ نوے کی دہائی کے شورش زدہ برسوں میں یہی شعبہ سب سے پہلے متاثر ہوا اور سب سے آخر میں سنبھلا۔ مگر ان تمام زخموں کے باوجود، کشمیری عوام نے ہمیشہ نئے سرے سے جینے، جوڑنے اور خوش آمدید کہنے کا حوصلہ دکھایا۔ حالیہ برسوں میں جس طرح سے ملکی و غیر ملکی سیاحوں نے وادی کا رخ کیا، اس سے امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید اب کشمیر ایک بار پھر ’جنت نظیر‘ کہلانے کے ساتھ ساتھ ’سیاحوں کی جنت‘ بھی بن جائے۔لیکن پہلگام کے سانحے نے ان امیدوں کو وہ زخم دیا ہے جس کا بھرنا محض دعووں سے ممکن نہیں۔ یہ حملہ صرف گولیوں سے نہیں، اعتماد کی بنیادوں پر ہوا ہے اور اعتماد وہ دھاگہ ہے جس سے کشمیر کی سیاحت بندھی ہوئی تھی۔
اس تناظر میں جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی طرف سے گلمرگ میں اعلیٰ سطحی میٹنگ کا انعقاد اور دیگر سیاحتی مراکز پر کابینہ سطح پر موجودگی کی کوششیں ایک اہم قدم ضرور ہیں۔ان کا مقصد محض اعتماد کی بحالی نہیں، بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ حکومت زمینی سطح پر موجود ہے اور اس بحران سے نبرد آزما ہونے کے لیے سنجیدہ ہے۔وزیر اعلیٰ کا نیتی آیوگ میں یہ کہنا کہ وادی میں پارلیمانی کمیٹیوں اور سرکاری اجلاسوں کا انعقاد سیاحت کے احیاءمیں مدد دے گا، ایک سیاسی پیغام سے بڑھ کر اقتصادی امید ہے ۔ بشرطیکہ ان بیانات کا ترجمہ عملی اقدامات میں ہو۔یہ اقدام صرف ادارہ جاتی رسائی تک محدود نہ ہوں بلکہ گراس روٹ سطح پر ایسے نفسیاتی، سماجی اور معاشی اقدامات کا حصہ بنیں جن سے متاثرہ افراد اور سیاحتی نظام کی مکمل بحالی ممکن ہو سکے۔سیاحت کشمیر کی اقتصادی ریڑھ کی ہڈی ہی نہیں، بلکہ سماجی ہم آہنگی کا بھی آئینہ ہے۔ یہ وہ شعبہ ہے جس سے نہ صرف براہِ راست لاکھوں افراد کا روزگار جڑا ہے بلکہ بالواسطہ ہر دکاندار، کسان، دستکار اور مزدور اس سے فیضیاب ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ صرف ہوٹلوں اور ہاو¿س بوٹس کا نہیں، پورے معاشی نظام کا بحران ہے۔سیاحوں کی غیر موجودگی صرف مالی نقصان نہیں، بلکہ ثقافتی رابطے، بین العلاقائی تعلقات، اور امن کے بیانیے کی شکست ہے۔ کیونکہ جب کشمیر کا دروازہ باہر والوں پر بند ہوتا ہے، تو دنیا کے سامنے ایک تنگ اور مسخ شدہ تصویر ابھرتی ہے، جو نہ کشمیر کے عوام کی نمائندگی کرتی ہے، نہ ان کی خواہشات کی۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ محض حفاظتی اقدامات اور سرکاری میٹنگوں سے آگے بڑھ کر، ایک ہمہ جہت بحالی منصوبہ ترتیب دیا جائے۔ اس میں مقامی شراکت داری، نفسیاتی بحالی، جدید مارکیٹنگ، ٹورازم انشورنس اور ہنگامی امداد شامل ہو۔مزید یہ کہ میڈیا کے ذریعے مثبت بیانیہ، ثقافتی تقریبات، علاقائی اعتماد سازی اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے تحفظ کی خصوصی اسکیمیں متعارف کی جائیں۔ کیونکہ جب تک شکوک کے بادل چھٹیں گے نہیں، وادی میں سحر نہیں لوٹے گی۔سیاحت کا زخم محض ایک شعبے کا زخم نہیں، یہ کشمیر کے اجتماعی دل پر لگنے والی چوٹ ہے اور اس کا علاج صرف سیکیورٹی سے نہیںبلکہ اعتماد، شفافیت اور اجتماعی رویے کی تبدیلی سے ممکن ہے۔کشمیر کی خوبصورتی صرف مناظر میں نہیں، اس کے کھلے دلوں، کشادہ پیشانیوں اور سیاحوں کے لیے بے مثال محبت میں ہے۔ اگر یہ دل مرجھا جائے تو جنت بھی اجڑ جاتی ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img