یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے علم، فکر اور تخیل کی سرحدوں کو وسعت دیتا رہے۔ تاریخ کے ہر دور میں کوئی نہ کوئی ایجاد انسانی زندگی کو نئی جہت عطا کرتی رہی ہے۔چاہے وہ چرخہ ہو یا چھاپہ خانہ، بجلی ہو یا انٹرنیٹ۔ مگر آج ہم جس دہلیز پر کھڑے ہیں، وہاں صرف سہولت نہیں بلکہ فکری وجود، اخلاقی شعور اور انسانی مستقبل کے سوالات بھی ہمارے سامنے ہیں۔ یہ دہلیز ہے، مصنوعی ذہانت کی۔(AI) نہ صرف مشینوں کو سوچنے، سیکھنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت دے رہا ہے بلکہ انسان کی روزمرہ زندگی، معیشت، تعلیم، طب، میڈیا اور حتیٰ کہ جذباتی تعاملات میں بھی نئی تعریفیں پیدا کر رہا ہے۔ یہ امکانات سے لبریز دنیا ہے، مگر ان امکانات کے ساتھ ساتھ اندیشے بھی کم نہیں۔ کیا ہم ٹیکنالوجی کے خالق رہیں گے یا اس کے تابع؟ کیا علم کا یہ نیا منبع انسانیت کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا یا ہمیں خود اپنی شناخت کے بحران سے دوچار کر دے گا؟یہ اداریہ انہی سوالوں کی پرتیں کھولنے، امکانات اور خطرات کے توازن کو سمجھنے، اور اس ارتقائی لمحے میں ایک باشعور مکالمے کو جنم دینے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔
مصنوعی ذہانت اب نہ صرف انسانوں کا ساتھ دے رہی ہے بلکہ بعض میدانوں میں انہیں پیچھے چھوڑتی دکھائی دیتی ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی تازہ تحقیق کے مطابق جدید زبان سمجھنے والے ماڈلز، جیسے(Chat GPT) مباحثے کے میدان میں انسانوں کے ہم پلہ یا ان سے بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ یہ خبر صرف تکنیکی پیش رفت نہیں، بلکہ اخلاقی اور سماجی سوالات کا ایک پنڈورا باکس بھی کھولتی ہے۔ان زبان ماڈلز کی سب سے خطرناک صلاحیت یہ نہیں کہ وہ مدلل، منطقی دلائل دے سکتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ جب انہیں کسی فرد کی ذاتی معلومات دی جائیں، تو وہ اپنے دلائل کو اس مخصوص فرد کی کمزوریوں یا رجحانات کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ اس مہارت سے لیس ایک ’مصنوعی مباحث‘صرف جیتنے کے لیے نہیں بولتا، بلکہ سننے والے کو قائل کرنے کے لیے نفسیاتی حربے استعمال کرتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں یہ ٹیکنالوجی صرف سائنسی کارنامہ نہیں بلکہ ایک سماجی دھچکہ بن جاتی ہے۔
دوسری طرف، یہی صلاحیت اگر مثبت مقصد کے لیے استعمال کی جائے،جیسے سیاسی انتہا پسندی یا غلط عقائد سے دور کرنے کے لیے تو شاید یہ ایک نیا اخلاقی ہتھیار بن سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس’نیت‘ کا تعین کون کرے گا؟ کیونکہ(AI) خود کچھ نہیں چاہتا، نہ اسے سچ یا جھوٹ کی کوئی تمیز ہے۔ جیسا کہ لسانی ماہر ایمیلی بینڈر نے کہا، ’(AI) محض ایک ’احتمالی طوطا‘ہے، جو بغیر سمجھے فقط درست جملے تشکیل دیتا ہے۔یوں اصل خطرہ (AI) نہیں بلکہ وہ انسان ہیں جو اس کے پیچھے بیٹھے ہیں۔ چونکہ ہر نئی ٹیکنالوجی انسانی ارادے کی پرچھائیں ہوتی ہے، اس لیے جب نیتوں میں لالچ، طاقت کی ہوس یا تعصب شامل ہو، تو(AI) جیسے غیرجانبدار اوزار بھی خطرناک ہتھیار بن سکتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ مصنوعی ذہانت اپنی ’ذہانت‘ سے ہمیں مرعوب کر رہی ہے، مگر اصل امتحان انسان کی’دانائی‘ کا ہے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ اس حیرت انگیز ٹیکنالوجی کو انسانیت کے حق میں استعمال کرنا ہے یا اس کے خلاف، کیونکہ اگر قابو انسان کے ہاتھ میں ہے، تو ذمہ داری بھی انہی کے کندھوں پر ہے۔
