جموں و کشمیر ایک عرصے سے دنیا کی نظروں میں دو متضاد شناختوں کے بیچ الجھا ہوا ہے۔ایک طرف فطرت کی جنت، دوسری طرف نا مساعد حالات کی زد میں آیا خطہ۔ پہلگام میں حالیہ دہشت گرد حملہ، جس میں 26بے گناہ سیاحوں کی جانیں گئیں، اس سچائی کی تلخ یاددہانی ہے کہ امن ایک نازک شے ہے اور سیاحت اس امن کا سب سے پہلا امتحان ہے۔یہ حملہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع نہیں، بلکہ وادی کے اس خواب پر بھی وار تھا جو سالہا سال کی کوششوں سے پرورش پا رہا تھاکہ کشمیر ایک محفوظ، خوبصورت، اور خوشحال سیاحتی مقام بنے۔ ہزاروں نوجوان، ہوٹل مالکان، گائیڈ، کاریگر، ٹیکسی ڈرائیور،سب کی امیدیں اس ایک دھچکے سے متزلزل ہو گئی ہیں۔دہشت گردی کے ایسے واقعات کا اثر محض ایک روز کی ہیڈلائن تک محدود نہیں ہوتا۔ یہ زخم سیاح کے دل میں بھی رہ جاتا ہے اور معیشت کی شہ رگ میں بھی۔ جو لوگ وادی آنے کا ارادہ رکھتے تھے، اب وہ پلٹ کر سوچیں گے۔ ٹور آپریٹرز، جو ابھی کورونا کے بعد سنبھلے ہی تھے، ایک بار پھر خطرے میں ہیں۔
یہ حملہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ محض قدرتی حسن یا تشہیری مہمات کافی نہیں ہوتیں، جب تک تحفظ کی ٹھوس گارنٹی موجود نہ ہو۔ وادی میں سکیورٹی کا ازسرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، خاص طور پر سیاحتی علاقوں، ہوٹل زونز، یاترا راستوں اور آمد و رفت کے مراکز میں۔ سیاح کا اعتماد اس کے سکون میں پنہاں ہوتا ہے اور جب تک ہم وہ سکون بحال نہ کریں، ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔سیاحت کے شعبے کو صرف روایتی طریقوں سے نہیں، بلکہ جدید اور محفوظ انداز سے دوبارہ کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیجیٹل رجسٹریشن، سمارٹ سکیورٹی سسٹمز، کیمرا نگرانی اور ٹورزم پولیس جیسی پالیسیاں، اب اختیار نہیں بلکہ ناگزیر ہو چکی ہیں۔ اسی طرح، مقامی نوجوانوں کو تربیت، مالی امداد، اور اعتماد دینا ہو گا تاکہ وہ اس صنعت کو پھر سے سنبھال سکیں۔
یہ صرف حکومت یا کسی مخصوص محکمے کا کام نہیں۔ ہمیں یہ بحالی قومی جذبے سے کرنی ہو گی۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ سنسنی کے بجائے ہمدردی کو فروغ دے۔ مقامی سماج، سول سوسائٹی، اور تعلیمی ادارے سیاحوں کے لیے خوش آئند رویہ اختیار کریں۔ سرمایہ کار، این جی اوز، اور حتیٰ کہ عوام الناس بھی اپنا کردار ادا کریں۔اس حملے نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ جب تک ہم سیاحت کو صرف”خوبصورتی“سے جوڑ کر دیکھتے رہیں گے، ہم اس کی اصل روح،تحفّظ، روزگار، اور بین الثقافتی ہم آہنگی کو فراموش کرتے رہیں گے۔پہلگام کے زخم کو صرف ماتم سے نہیں، مرہم سے بھرنا ہو گا۔ اور مرہم اتحاد، یقین اور اقدام کا نام ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم سب، مل کر کشمیر کی شناخت کو بچائیں،وہ شناخت جو امن، محبت اور میزبانی کی پہچان ہے۔
