ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
17.7 C
Srinagar

بہار اورسیاحت کی سمت۔۔۔۔

وادی کشمیر میں بہار کا آغاز ایک خوشگوار ہلچل لے کر آتا ہے۔ برف کے پگھلنے کے ساتھ ہی ہر سمت نئی زندگی جنم لیتی ہے۔چنار کے درخت لہلہاتے ہیں، پھولوں کی وادیاں کھل اٹھتی ہیں اور قدرتی حسن کی یہ جیتی جاگتی تصویر دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ لاتی ہے۔ اس سال بھی کچھ ایسا ہی منظرنامہ ہے۔ ہوٹلوں اور ہاو¿س بوٹوں میں فل بکنگ، مشہور سیاحتی مقامات پر رش اور فضا میں گونجتی مختلف زبانوں کی آوازیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وادی ایک بار پھر اپنے سیاحتی جوبن پر ہے۔وادی کشمیر میں بہار کا آغاز صرف ایک موسم کی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک تہوار جیسا محسوس ہوتا ہے۔ برف کے پگھلنے کے ساتھ ہی منجمد جھیلوں پر لہریں دوڑنے لگتی ہیں، ندی نالے گنگناتے ہیں اور ہر طرف ہریالی ایک نئی زندگی کی نوید دیتی ہے۔ چنار کے درخت، جو سردیوں میں سوگوار کھڑے تھے، اب تازہ پتوں سے سج کر جھومنے لگتے ہیں۔ سرینگر کے مشہور ٹولپ گارڈن میں لاکھوں رنگ بکھرتے ہیں، جہاں مقامی لوگ اور سیاح ہر سال اس قدرتی جلوے کے گواہ بنتے ہیں۔پہلگام، گلمرگ، سونمرگ اور ڈل جھیل جیسے مقامات پر زندگی لوٹ آتی ہے۔ ہاو¿س بوٹس ایک بار پھر روشنیوں سے جگمگا اٹھتے ہیں اور شکارے کناروں سے نکل کر پانی پر رقص کرنے لگتے ہیں۔ سیاح صرف مناظر سے ہی نہیں، بلکہ کشمیری ثقافت، روایات، پکوانوں اور لوگوں کی گرمجوش مہمان نوازی سے بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ بازاروں میں روایتی کشمیری شالیں، دستکاری اور خشک میوے ہاتھوں ہاتھ بک رہے ہیں، اور فضا میں مختلف زبانوں کی چہل پہل سنائی دیتی ہے۔تاہم، بہار کے اس سیاحتی بہاو¿ نے جہاں وادی کو ایک معاشی توانائی بخشی ہے، وہیں کچھ چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں۔ ٹریفک جام، پارکنگ کی قلت اور ہوٹلوں کی مہنگائی جیسے مسائل مقامی لوگوں اور سیاحوں دونوں کے لیے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔
خاص طور پر ویک اینڈز پر مشہور مقامات کی سڑکیں رینگنے لگتی ہیں، جس سے نہ صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ سیاحتی تجربہ بھی متاثر ہوتا ہے۔پھر بھی، ان تمام چیلنجز کے باوجود، کشمیر کی بہار ایک ایسا جادو ہے جس کے سحر سے بچ پانا ممکن نہیں۔ یہ وہ موسم ہے جب وادی اپنی اصل خوبصورتی میں دنیا کے سامنے آتی ہے ۔ ایک ایسی جیتی جاگتی تصویر، جو ہر سال لاکھوں دلوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔یہ موسم خوشی کا ہے، لیکن سوچنے کا بھی۔ جب ہم سیاحت کو فروغ دینے کی مہمات چلا رہے ہیں تو لازم ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی بہتری کو بھی اسی جذبے سے دیکھا جائے۔ سیاحوں کے لیے صرف نظارے کافی نہیں۔قیام، نقل و حمل، صفائی، طبی امداد اور دیگر سہولیات وہ ستون ہیں جن پر پائیدار سیاحت کھڑی رہ سکتی ہے۔ بہت سے سیاحتی مقامات ایسے ہیں جہاں رات گزارنے کی سہولیات موجود نہیں، وہاں بنیادی رہائشی ڈھانچے کی فراہمی ناگزیر ہوچکی ہے۔ حکومت کی جانب سے ہوم سٹے کی حوصلہ افزائی ایک مثبت قدم ہے، جو نہ صرف سیاحوں کو گھریلو ماحول فراہم کرتا ہے بلکہ مقامی آبادی کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔ خاص طور پر سرحدی علاقوں میں سیاحت کا فروغ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔اب ان علاقوں میں قیام و طعام کے موثر انتظامات کیے جانے چاہئیں تاکہ یہ ترقی عارضی نہ ہو۔
اب جب کہ سالانہ امرناتھ یاترا کا سیزن بھی قریب ہے، تو مزید منظم اور مربوط حکمت عملی وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ سیاحوں کی آمد کو صرف خوش آمدید کہنے سے کام نہیں چلے گا، ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ کس مقام پر کتنے سیاحوں کی گنجائش ہے، تاکہ ماحولیات پر بوجھ نہ پڑے اور خود قدرتی حسن بھی متاثر نہ ہو۔ فضلہ، پلاسٹک اور بے ہنگم ڈھانچے ہمارے فطری ورثے کے دشمن ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مقامی سیلانیوں کے لیے بھی سہولیات دستیاب ہوں، جو بہار کے ان دنوں میں اپنے خاندانوں کے ساتھ فطرت کے قریب وقت گزارنے نکلتے ہیں۔ سیاحت صرف اقتصادی مواقع کا نام نہیں۔یہ ثقافتی میل جول، قدرت سے رشتہ اور سماجی ہم آہنگی کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ صرف تبھی ممکن ہے جب ہم سیاحت کو صرف اعداد و شمار کے پیمانے پر نہ ناپیں، بلکہ اس کے معیار اور پائیداری کو بھی اولین ترجیح دیں۔

Popular Categories

spot_imgspot_img