جمہوریت کی روح یہ ہے کہ عوام کی منتخب کردہ حکومت کو مکمل اختیارات دیے جائیں تاکہ وہ عوامی مسائل کو حل کر سکے اور عوامی امنگوں کے مطابق فیصلے لے سکے۔ لیکن اگر کسی جمہوری ریاست میں عوامی حکومت کو بے اختیار کیا جائے اور غیرمنتخب افراد یا مخصوص انتظامیہ کو فوقیت دی جائے ،تو یہ جمہوری اصولوں کی کھلی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں کٹھوعہ میں تین عام شہریوں کے بہیمانہ قتل کے واقعہ نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ جب عوامی حکومت کے اختیارات محدود کیے جاتے ہیں تو عوام کے مسائل اور دکھوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔کٹھوعہ میں پیش آنے والا یہ المناک واقعہ، جس میں تین بے گناہ شہریوں کو نامعلوم افراد نے بے دردی سے قتل کر دیا، پورے خطے میں خوف و ہراس کی لہر دوڑا گیا۔ ایسے نازک حالات میں عوام کو اپنی منتخب حکومت کی جانب سے فوری انصاف اور ہمدردی کی ضرورت تھی۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کرنے کے لیے جموں وکشمیرکے ڈپٹی چیف منسٹر (نائب وزیر اعلیٰ) کو کٹھوعہ جانے کی اجازت نہیں دی گئی، جبکہ اپوزیشن لیڈر کو وہاں جانے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ فیصلہ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔گزشتہ روز جموں وکشمیر (یوٹی)کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی ایوانِ اسمبلی میں اس پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے کہ اپوزیشن لیڈر کو متاثرین سے ملنے کی اجازت دی جائے، لیکن عوامی حکومت کے اہم عہدیدار (ڈپٹی چیف منسٹر) کو متاثرین سے ملاقات کی اجازت نہ دی جائے۔
وزیر اعلیٰ نے بجا طور پر نشاندہی کی کہ یہ عوامی حکومت کو بے اختیار کرنے اور اختیارات کو غیر منتخب گورنر انتظامیہ کے حوالے کرنے کی ایک کوشش ہے، جو جمہوریت کے اصولوں کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔یہ بات سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ جب کوئی حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہے تو اس کے نمائندے عوام کے جذبات اور احساسات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ کٹھوعہ واقعے کے بعد ڈپٹی چیف منسٹر کی متاثرہ خاندانوں سے ملاقات نہ صرف عوامی حکومت کے وقار کا تقاضا تھا بلکہ عوامی ہمدردی کا عملی مظاہرہ بھی تھا۔ لیکن انہیں وہاں جانے سے روک دینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ریاست میں انتظامی معاملات میں عوامی حکومت کو بے اختیار کر کے لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) انتظامیہ کو فوقیت دی جا رہی ہے۔یہاں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک غیرمنتخب گورنر یا لیفٹیننٹ گورنر کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ کسی منتخب عوامی نمائندے کو متاثرین سے ملنے سے روک دے، تو پھر عوامی حکومت کے ہونے کا مقصد کیا رہ جاتا ہے؟ اگر عوامی حکومت عوام کے دکھ درد میں ان کے ساتھ کھڑی نہیں ہو سکتی تو عوام کا جمہوری نظام پر سے اعتماد اٹھنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ عوامی حکومت کو مکمل اختیار حاصل ہو اور کوئی غیرمنتخب انتظامیہ عوامی حکومت کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہ کرے۔ لیکن کٹھوعہ واقعے میں جو کچھ دیکھنے کو ملا، وہ جمہوری اقدار کے بالکل برعکس تھا۔ اپوزیشن لیڈر کو متاثرین سے ملنے کی اجازت دینا اور ڈپٹی چیف منسٹر کو روک دینا نہ صرف جمہوری روایات کے خلاف ہے بلکہ یہ عوام کے مینڈیٹ کی توہین بھی ہے۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ کبھی بھی عوامی منتخب حکومت کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ لیفٹیننٹ گورنر کو مرکز سے تقرر کیا جاتا ہے اور اس کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہیں ہوتا، جبکہ ایک منتخب حکومت براہِ راست عوام کے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آتی ہے اور اسے عوام کے دکھ درد کا زیادہ بہتر ادراک ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر عوامی نمائندوں کو متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کی اجازت نہ دی جائے، تو یہ براہِ راست جمہوریت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا اسمبلی میں دیا گیا بیان بالکل بجا تھا کہ جمہوریت کا تقاضا یہ ہے کہ عوامی نمائندوں کو اختیار دیا جائے، نہ کہ غیرمنتخب افراد کو۔ اگر عوامی حکومت کے نمائندے عوام کے مسائل سننے کے لیے متاثرین کے پاس نہ جا سکیں، اور لیفٹیننٹ گورنر یا اس کی انتظامیہ بلاوجہ رکاوٹ پیدا کرے تو یہ درحقیقت عوامی مینڈیٹ کی توہین ہوگی۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی منتخب حکومت کو اس کا جائز اختیار دیا جائے اور لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ کو آئینی دائرے تک محدود رکھا جائے۔ کٹھوعہ واقعہ نے ثابت کر دیا ہے کہ جب عوامی نمائندوں کو ان کے بنیادی اختیارات سے محروم کیا جاتا ہے تو نہ صرف عوام کے مسائل نظر انداز ہو جاتے ہیں بلکہ جمہوریت کی جڑیں بھی کمزور ہوتی ہیں۔ عوامی حکومت کو کمزور کرنے کے بجائے اسے بااختیار بنایا جانا چاہیے تاکہ عوامی ا±منگوں کا حقیقی عکس نظر آئے۔جمہوریت کی اصل روح عوامی حکومت میں ہے، نہ کہ غیرمنتخب گورنر انتظامیہ میں۔ اگر کٹھوعہ جیسے افسوسناک واقعات کے بعد بھی عوامی نمائندوں کو متاثرین سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی تو یہ عوامی حکومت کے وقار پر براہِ راست حملہ ہوگا، جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔عوام کا فیصلہ ہی جمہوریت کی اصل طاقت ہے اور عوامی حکومت کو بااختیار بنانا ہی انصاف کی ضمانت ہے۔