ناصر منصور شاز
اومپورہ ہاو¿سنگ کالونی بڈگام
اللہ تعالی اپنے بندوں کے لیے شفیق و رفیق خالق ہیں جو اپنی مخلوق پر رحم و کرم کی بارش برسا کر خوابیدہ بندوں کی خاطر تزکیہ نفس۔ purification کی تمام راستے کھولتے رہتے ہیں
ماہ رمضان ہمارے اوپر سایہ افگن ہے۔ رمضان میں روزہ رکھنے کا اصل مقصد و مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالی مسلمانوں کے لئے گزشتہ گزرے ہوئے گیارہ مہینوں کی غفلت شِعاری کی یاد دہانی کریں اور اگلے آنے والے گیارہ مہینے باعث نجات ہوں۔ ہمارے لیے ایک بہترین موقع ہے کہ ہم اپنے ایمان کو مزید مضبوط بنائیں، اپنے روزہ کے ذریعے اپنے آپ کو اللہ تعالی کے قریب تر لائیں اور اگلے گیارہ مہینوں کے لیے اپنے آپ کو نجات کے راستے پر گامزن کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی خاطر رجب و شعبان کے مہینوں میں استقبال رمضان اور اس کی خیر و برکت کی امیدوں کی خاطر کثرت سے دعائیں کیا کرتے تھیں تاکہ ہم بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے رمضان کے اس مبارک مہینے کی برکتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔
ماہ رمضان المبارک ہمیں کیا عظیم نعمت دینا چاہتا ہے اور کیوں دینا چاہتا ہے؟ اس سوال کے جواب کی نہ تو کسی انسانی تفسیر و تفصیل کی نہ ہی کسی شرح توضح کی ضرورت ہے۔ اس کا جواب ایک نص حدیث میں مختصر الفاظوں میں مروی ہے اور معنوی اعتبار سے ایک جامع حدیث ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا ایک خطبہ مبارک نقل کیا گیا ہے۔
ملاحظہ فرمایں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک متبرک روایت ہمیں ایک بے مثال مہینے کی عظمت کا احساس دلانے کے لیے آئیں ہیں۔ ماہ شعبان کے آخری روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے ہمیں اس عظیم الشان مہینے کی برکتوں اور فضیلتوں سے آگاہ کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ اے لوگو! تحقیق عظمت اور برکت والے مہینے نے تم پر اپنا سایہ ڈالا ہے۔ اس مہینے میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی زیادہ افضل ہے۔ اللہ تعالی نے اس مہینے کے روزے فرض قرار دیئے ہیں اور اس کی رات کی نماز کو نفل ٹھہرایا ہے۔ اس مہینے میں جو شخص ایک اچھی نفلی عبادت اور نیکی کے ذریعے سے اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کی اللہ تعالی کے ہاں وہ حیثیت ہوگی جو رمضان شریف کے سوا ایک فرض ادا کرنے کی ہوتی ہے اور جس نے اس ماہ میں ایک فریضہ ادا کیا اسے یوں سمجھنا چاہیئے کہ ستر فریضے ادا کیئے ہیں۔
یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو ہمیں صبر اور استقامت کی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے، اور یہی صبر ہمیں جنت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور محبت کے ساتھ پیش آنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس میں مومن کی روزی میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ جس شخص نے بھی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا، یہ عمل اس کے لیے گناہوں کی معافی اور دوزخ سے نجات کا ذریعہ بن جائے گا اور روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی کیے بغیر اس کے برابر افطار کرانے والے کو ثواب ملے گا۔ ۔۔۔۔۔۔ہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہر ایک تو اس حیثیت میں نہ?ں ہوتا کہ روزہ دار کو روزہ افطار کراسکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی عنایت کرے گا جس نے ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دورھ یا ایک خشک کھجور سے کسی کا روزہ افطار کرایا۔ اور جس شخص نے کسی روزہ دار کو سیر کرکے پلایا تو اس کو اللہ تعالی میرے حوضِ کوثر سے اس طرح پلائے گا کہ پھر جنت میں داخل ہونے تک اس کو پیاس محسوس نہ ہوگی۔
یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا حِصہ رحمت کا درمیانہ بخشش و مغفرت کا اور آخری دوزخ سے آزادی کا ہے۔ اور جو شخص اس مبارک ماہ میں اپنے ماتحت غلام مزدور اور ملازمین وغیرہ سے تخفیف کرے گا۔ اللہ تعالی اسے جہنم کی آگ سے نجات دے دے گا۔ صحیح ابن خزیمہ۔۔۔۔ خلاصہ کلام
اس حدیث میں ماہ رمضان کے تمام اندرونی احوال و اطوار اور کل کیفیت کی ترجمانی کی گئی ہے جو ہمارے اندر روحانی انقلاب لانے کی ترغیب دیتی ہے یہ تفصیلی خطبہ رمضان المبارک کا ایک بے مثال منشور ہے جس سے اس ماہ کی عظمت و قدر کا ادراک کرتے ہوئے ہم اپنے ایمان کو مزید مضبوط کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس حدیث کو بار بار پڑھیں اور اس کی روشنی میں اپنے اندر ایک نیک عمل کا جذبہ پیدا کرکے رمضان کی برکتوں کو زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی کوشش کریں۔اللہ تعالی نے روزے کے اغراض و مقاصد۔ تقویٰ کی شرط پر رکھی ہے۔ فرمایا اے ایمان والوں فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہز گار ہوجاو¿ اور اپنی روح کو پاک کرو۔مذکورہ شرط کی وہیں لوگ پاس کرتی ہیں جو رمضان المبارک کے مہینے کو ایک بے مثال تربیتی موقع کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی معنوں میں رمضان کو سمجھتے ہیں اور انہیں ریّان کے دروازے سے جنت میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہوگی۔