جموں و کشمیر اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں ممبران کے لب و لہجے اور اندازِ گفتگو نے شدید مایوسی پیدا کی ہے۔ نو منتخب ممبران کا بولنے کا طریقہ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کسی بالی ووڈ فلم کے ولن ہوں۔ایوان میں منتخب نمائندوں کو نپے تلے الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے اور شائستہ زبان اپنانی چاہیے۔ عام طور پر، جب دو افراد تلخ کلامی پر اتر آتے ہیں، تو انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ’پارلیمانی زبان‘ استعمال کریں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایوانوں کا مقام کس قدر مقدس اور باوقار ہوتا ہے، جہاں گفتگو میں تہذیب اور شائستگی کا دامن نہیں چھوڑا جاتا۔ بدقسمتی سے، پچھلے چند برسوں میں ملک کی مختلف ریاستی اسمبلیوں میں نہ صرف گالم گلوچ بلکہ ہاتھا پائی کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ حتیٰ کہ ملک کے سب سے بڑے ایوان، پارلیمنٹ میں بھی اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کو تمسخرانہ انداز میں’پپّو‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا۔
جموں و کشمیر اسمبلی کے بجٹ اجلاس کا بنیادی مقصد عوامی مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کے حل کے لیے ٹھوس حکمتِ عملی پر بحث کرنا تھا، لیکن بدقسمتی سے، یہاں بھی اجلاس کو انتخابی مہم کا اکھاڑا بنا دیا گیا، جہاں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہاں کے منتخب نمائندے عوامی مسائل پر بات کرنے کے بجائے سیاست میں زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی دیے۔ حد تو یہ ہوئی کہ ایک معزز ممبر نے شخصی راج کے خلاف آواز بلند کرنے والے شہداءکو دہشت گرد کہہ دیا، جو سراسر ناانصافی اور سیاسی تعصب کی عکاسی کرتا ہے۔جمہوری نظام کا بنیادی اصول شخصی پرستی کی نفی اور عام شہری کو اہمیت دینا ہے، کیونکہ یہی عام عوام اپنے ووٹ سے کسی کو وزیرِاعظم، وزیر، یا ایم ایل اے منتخب کرتے ہیں۔ اس جمہوری نظام کو نافذ کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں، کیونکہ وہ انگریز حکمرانوں کے اس طرزِ عمل کے خلاف تھے، جہاں اپنے پسندیدہ افراد کو عوام پر مسلط کیا جاتا تھا۔
بلاشبہ، بھارت ایک جمہوری ملک ہے، جہاں ہر شہری کو آزادیِ اظہار کا حق حاصل ہے، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی بھی، کسی بھی جگہ، کچھ بھی بول سکتا ہے، بغیر کسی اخلاقی اور آئینی حدود کا خیال کیے۔ منتخب نمائندوں کے اس رویے سے عام عوام بدظن ہو رہے ہیں۔جہاں تک اسمبلی کے اسپیکر کا تعلق ہے، انہیں کسی بھی سیاسی جماعت یا فرد کی طرفداری کیے بغیر غیرجانبدار رہنا چاہیے اور ایوان میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔ کسی بھی رکن کی غیر شائستہ حرکت پر فوری کارروائی ہونی چاہیے اور ممبران کو عوامی مسائل کے حل کے لیے حکومت پر دباو ڈالنے کی ترغیب دینی چاہیے، تاکہ جمہوری تقاضوں کے مطابق عوامی مشکلات کا ازالہ کیا جا سکے، نہ کہ ایوان کا وقت غیر ضروری سیاسی تنازعات پر ضائع کیا جائے۔اگر اسمبلی کے اجلاس اسی طرح ہنگامہ خیزی، گالم گلوچ، اور تعصب پر مبنی زہر افشانی میں ضائع ہوتے رہے، تو مستقبل میں عوام ووٹ ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کریں گے۔
