بدھ, مئی ۱۴, ۲۰۲۵
18.4 C
Srinagar

’الحاق اور شرائط دونوں مستقل‘

ملک بھر میں یونین ٹریٹری کیساتھ اسمبلی عوام کیساتھ دھوکہ:عمر عبداللہ

مانیٹر نگ ڈیسک

سرینگر: جموں و کشمیر (یوٹی)کے وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ آرٹیکل370 کے ساتھ وابستہ ’عارضی‘یا’عبوری‘ کی اصطلاح کا ایک مخصوص پس منظر ہے جبکہ ملک بھر میں یوٹی کیساتھ اسمبلی عوام کیساتھ دھوکہ ہے۔ عمر عبداللہ نیوز 18 انڈیا کے خصوصی پروگرام ڈائمنڈ اسٹیٹس سمٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر دہرایا کہ جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق مستقل تھا، لیکن وہ شرائط اور فریم ورک بھی مستقل تھے جن کے تحت یہ الحاق عمل میں آیا تھا۔ انہوں نے آئینی دفعات کی تشریح کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں پہلوو¿ں کو برابر تسلیم کیا جانا چاہیے، نہ کہ ایک کو مستقل اور دوسرے کو عارضی سمجھا جائے۔ عمر عبداللہ نے زور دے کرکہا ”جموں و کشمیر میں ایسا کیا ہونا تھا جو اسے مستقل بناتا؟ کیا یہ بھارت کے نظام میں قبولیت تھی؟ نہیں جناب، اگر آپ ایک چیز کو چھوڑنا چاہتے ہیں تو پوری چیز کو ہی لیجیے۔ الحاق کے وقت جموں و کشمیر کے عوام سے جو وعدہ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے اسے عارضی اور عبوری قرار دیا گیا، وہ وعدہ رائے شماری کا تھا۔‘انہوں نے وضاحت کی کہ الحاق کے وقت جموں و کشمیر کی حیثیت مکمل طور پر باضابطہ نہیں تھی اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کے مستقبل کا فیصلہ جمہوری طریقے سے کیا جائے گا۔ وقت کے ساتھ، الحاق کو حتمی طور پر تسلیم کر لیا گیا، لیکن عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ اس کے تحت قائم فریم ورک کو بھی برقرار رکھا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا:’اگر الحاق مستقل ہے تو وہ شرائط اور فریم ورک بھی مستقل ہیں جن کے تحت یہ الحاق ممکن ہوا تھا۔ ایک کو عارضی اور دوسرے کو مستقل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یا تو دونوں عارضی ہیں یا دونوں مستقل ‘۔انہوں نے مرکزی حکومت پر جموں و کشمیر کے آئینی درجے کی من مانی تشریح کا الزام لگایا۔ان کا کہناتھا ’ہم دونوں کو مستقل مانتے ہیں۔ ہم چناو¿ نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں کہ الحاق بھی مستقل ہے اور الحاق کے فریم ورک اور شرائط بھی مستقل ہیں۔ لیکن آپ کہتے ہیں کہ الحاق مستقل ہے جبکہ فریم ورک عارضی ہے۔ یہی ہمارے اور آپ کے سوچنے کے انداز میں فرق ہے۔‘ ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے تسلیم کر تے ہوئے کہا ’دفعہ370کی منسوخی کے بعد جموں وکشمیر میں علیحدگی پسند سیاست میں کمی آئی ہے ،اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے ،آپ کبھی سوچ سکتے تھے کہ میر واعظ عمر فاروق صاحب کو مرکزکی طرف سے سی آر پی ایف کے گارڈ لگےں گے،میں تو یہ شاید نہیں سوچ سکتا تھا ،لیکن حالات بدل گئے ۔کیا حالات بہتر ہوئے؟عمر عبداللہ نے کہا’اب اگر علیحدگی پسند سیاست کم ہوتو بہتری تو ہوگی۔انہوں نے ایک بار پھر جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ اٹھایا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں کے لوگ اب بھی مکمل ریاست کا درجہ حاصل کرنے کے منتظر ہیں۔ عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کو ریاست کے لوگوں کے ساتھ غداری قرار دیا۔ سال 2019 میں جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد جموں و کشمیر اور لداخ کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا۔ جموں و کشمیر کو دہلی کی طرز پر اسمبلی کے ساتھ مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا ہے۔عمر عبداللہ نے ڈائمنڈ اسٹیٹس سمٹ میں کہا کہ سال 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی گئی۔ آرٹیکل 370 کو 2019 میں ہٹا دیا گیا تھا۔ اب سال 2025 ہے۔ تب کہا گیا کہ یہ ایک عبوری مرحلہ ہے۔ اب پانچ سال گزر چکے ہیں۔ اب یہاں کیا عبوری مرحلہ ہے۔ منتقلی اب ہوئی ہے، ٹھیک ہے؟ اس وقت آپ کے پاس منتقلی کا مرکزی اصول تھا۔ جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری کو اب منتقلی کی ضرورت نہیں ہے۔ جب نیوز 18 کے منیجنگ ایڈیٹر نے ان سے پوچھا کہ مرکز نے بھی کہا ہے کہ جموں و کشمیر کو یقینی طور پر مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔ اس پر عمر عبداللہ نے کہا کہیو ٹی جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ جب آپ لوگوں کو کہتے ہیں کہ اپنی حکومت خود منتخب کریں۔ حکومت کو منتخب کرنے کے بعد اسے اپنے حقوق ملنے چاہئیں۔ ورنہ اسمبلی اور منتخب حکومت نہ رکھیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں مرکزی حکومت کے تعاون سے اس نظام میں اپنا کام کروانے میں مشکلات کا سامنا ہے؟ اس پر جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔ ہم اپنا کام کرتے رہیں گے لیکن ظاہر ہے کہ یہ ریاست نہیں ہے۔ آپ نے خود اپنے سوال کے ذریعے کہا کہ یہ دوہری طاقت کا نظام ہے، جو درست ہے۔ مرکز کے زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے نیوز 18 انڈیا کے خصوصی پروگرام میں کہا کہ انڈیا الائنس کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی لیڈر یہ کہتا ہے کہ یہ اتحاد صرف لوک سبھا انتخابات کے لئے تھا تو پھر ہمیں اپنے کام کو ملتوی کر دینا چاہئے۔ ایسے میں 2029 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات سے پہلے 2028 میں اس اتحاد پر دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ اتحاد موجود ہے تو ہمیں اس کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ اسمبلی انتخابات اتحاد کے تحت ہی ہونے چاہئیں۔ ایسا نہیں کرنے سے نقصان ہو رہا ہے۔ یہ ہریانہ اور دہلی اسمبلی انتخابات میں دیکھا جاچکا ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ ہماری اور بی جے پی کی پالیسیاں بالکل مختلف ہیں۔ نہ ہم بی جے پی کو قبول کر سکتے ہیں اور نہ ہی بی جے پی ہمیں قبول کر سکتی ہے۔ لیکن ریاست کی فلاح و بہبود کے لئے ہم مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہم مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے جموں و کشمیر کی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا ہے۔جموں و کشمیر کو یونین ٹیریٹری بنانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ موجودہ نظام حکومت بکواس اور گھٹیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ریاست ایک مکمل ریاست تھی تو اس کی حیثیت مختلف تھی۔ آج ہم ریاست نہیں ہیں۔ یونین ٹیریٹری اور ریاست میں بہت فرق ہوتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ جلد ہی مکمل ریاست کا درجہ مل جائے گا۔ ملک کے وزیراعظم نریندر مودی اور دیگر بڑے لیڈروں نے یقین دہانی کرائی ہے۔ ایسے میں امید ہے کہ مکمل ریاست کا درجہ مل جائے گا۔وزیراعلی عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ ریاست میں حالات بدل چکے ہیں۔ اس بار انتخابات میں عوام کی شرکت بڑھی ہے۔ چیزیں یقینی طور پر تبدیل ہوئی ہیں۔

Popular Categories

spot_imgspot_img