اتوار, جنوری ۱۹, ۲۰۲۵
9.6 C
Srinagar

بے ہنگم تعمیر اور ماحولیات ۔۔۔

وادی کشمیر میں سردیوں کے شہنشاہ کہلانے والے ’چلہ کلان ‘ کی 40روزہ سلطنت کا دور ہوچکا ہے ،لیکن برف وباراں کا کہیں کوئی نام ونشان ہی نہیں ہے ۔تاہم بعض بالائی علاقوں میں ہلکی برفباری ہوئی ،جس کے بارے میں یہ خیال کیا جارہا ہے یہ برفباری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ہر روز محکمہ موسمیات کی جانب سے پیش گوئی کی جارہی ہے ،فی الحال ’تر ‘ موسم کا امکان بہت کم ہے اور اہلیان کشمیر کو طویل خشک سالی کے حوالے سے مزید سامنا کرنا ہوگا ۔ موسم کی بے رخی یا سرد مہری نے کئی طرح کے خدشات اور تحفظات کو جنم دیا ہے ۔ماہرین موسمیات اس صورتِ حال کو مستقبل کے حوالے سے تباہ کن قرار دے رہے ہیں جبکہ کسان اور سیاحت سے جڑے افراد بھی کافی متفکر نظر آرہے ہیں ۔کسانوں کا کہنا ہے کہ اگر موسمی صورت حال یہی رہی تو فصلوں اور پھلوں کی کاشت کرنا انتہائی مشکل بن جائے گا اور اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے سائنسی طور طریقے بھی موثر ثابت نہیں ہوں گے ۔کیوں کہ پانی کے بغیر زندگی نا ممکن ہے اور ایسے میں فصلوں کی کاشت کی امید کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہو گا ۔
یہ پہلا موقع تو نہیں ہے کہ وادی کشمیر میں موسم نے بے رُخی کا اظہار کیا ہو ،اس سے قبل بھی ایسی صورت حال پیدا ہوا کرتی تھی ،یہ ایشین میل کا اداریہ نہیں بلکہ محکمہ موسمیات کے عہدیداروں کا کہنا ہے ۔تاہم چلہ کلان میں موسم کی یہ بے رُخی کئی طرح کے چیلنجز کے لئے انتباہ بھی ہے ۔اگر برفباری نہیں ہوئی ،تو موسم ِگرما میں پانی کی قلت کا سامنا کرنا کوئی تعجب نہیں ہوگا ۔کیوں کہ آبی ذخائر میں پانی ہی جمع نہیں ہوگا ،تو پانی کی سپلائی کا متاثر ہونا ،کوئی نئی بات نہیں ہوگی ۔”گرم موسم سرما “کے باعث جہاں گلیشئر تیزی سے پگھل رہے ہیں ،وہیں جنگلات میں لگنے والی آگ تباہی کی داستان بیان کررہی ہے ۔اس موسمی صورتحال سے آنے والے ایام یا مستقبل میں تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔اگر موسمیاتی یا ماحولیاتی نظام میں کسی بھی طرح کا بگاڑپیدا ہوتا ہے ،تو وہ آفات کی بھیانک شکل اختیار کر جاتا ہے ۔زلزلہ ،سیلاب اور بھی نہ جانے کیا کیا؟ ،یہ قدرتی آفات انسانی زندگی کے لئے موت کا سامنا پیدا کریں گے ۔اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے کہ پوری دنیا کو اس وقت جس سنگین مسئلے کا سامنا ہے ،وہ موسمیاتی تغیر ہے ۔بے معنیٰ جنگ ،جہاں انسانی زندگیوں کو نگل رہی ہے اور دنیا کی اقتصادی حالت متاثر ہورہی ہے ،وہیں ماحولیات پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔مطلب یہ کہ انسان خود ہی اپنے پاﺅں پر کلہاڑی ماررہا ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بے وجہ،ضرر سے بھرپور اور حد سے زیادہ ماحولیاتی نظام میں انسانی مداخلت کو روکا جاسکے ۔کیوں کہ اس بے جا مداخلت نے موجودہ صورتحال کو جنم دیا ۔جہاں عام لوگوں کو اپنے اندر ماحولیات کے تئیں شعور پیدا کرنا ہوگا ،وہیں حکومت ، حکومتی اداروں اور اسکے جڑے ہر ایک فرد کو اپنا رول، فرض کی مانند نبھا ناہوگا ۔فوری طور پر سیاحتی مقامات پر بے ہنگم تعمیر کو روکنا ہوگا ،سہولیات کے نام بے لگام تعمیرات بھیانک موسمی صورتحال کو جنم دے رہے ہیں۔جنگلات میں رسائی کے نام سڑکوں کی تعمیر سے ماحولیاتی آلودگی دیمک کی طرح ہمارے نظام کو چاٹ رہی ہے ۔آبی وسائل پر غیر قانونی قبضہ جوہری بم ثابت ہو رہا ہے ۔اس کو فوری پر روکنے کی ضرورت ہے ۔زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ عملی مظاہر کرنا ہوگا ،اعلان اور ہدایات نہیں بلکہ زمینی سطح پر کار گر اقدام کی ضرورت ہے ۔ اجتماعی دعا کرنا صحیح اور وقت کی ضرورت بھی ہے لیکن ہم سب کو ماحولیات کے حوالے سے اپنا اپنا اہم اور ذمہ دارانہ کردار ادا کر نا ہو گا ،نہیں تو دیر ہوجائے گی اور ہم سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img