یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہوتا ہے ۔عوامی سپورٹ کے بغیر کوئی بھی حکومت مضبوط اور طاقتور نہیں بن سکتی، نہ ہی کوئی حکمران عوام کو طاقت کے بل بوتے پر زیادہ دیر تک یرغمال رکھ سکتا ہے۔اس بات کااندازہ یہاں سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے کہ شام میں حکومت مخالف لوگوں نے شامی حکمران بشارالاسد کا تختہ پلٹ دیا اور پورے ملک میں عوام نے حکومت مخالف باغیوں کو اپنا تعاون دیا اور دمشق پر قبضہ جمانے کے بعد ان کے ساتھ ہوا میں گولیاں چلا کر جشن منایا۔بشارالااسد نے 21برس تک شام میں حکومت کی اورکئی مرتبہ اس دوران انہیں عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس دوران ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے اور ملک ہر اعتبار سے کمزور ہوتا گیا۔اس سے قبل سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بھی اسی طرح کی عوامی لہر چلی، جہاں شام کی نسبت عوامی حکومتیںقائم تھیں ۔یہاں کے حکمرانوں نے عوام کے جذبات اور احساسات کے خلاف کئی طرح کے اقدامات کئے اور قوانین بنانے کی کوشش کی ،جس کے بعد یہاں عوامی سیلاب سڑکوں پر آگیا اورحکمرانوں کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا، جس طرح آج شام کے صدر بشارالااسد اپنے عیال کے ہمراہ بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔
جہاں تک بیشتر اسلامی ممالک کا تعلق ہے، یہاں جمہوری نظام کو آگے بڑھنے یا پھلنے پھولنے نہیں دیا جارہا ہے بلکہ مختلف بہانے تراش کر خاندانوں ، نسلوں و مسلکوں کی بنیاد پر حکومتیں چلائی جاتی ہیں اور عام لوگوں کو حکومت کے تابع رہنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ان عرب ممالک کے برعکس بھارت ایک ا یسا کثیر الاآبادی والا ملک ہے ،جہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اور تمام مذاہب کی اپنی علیحدہ طرز زندگی ہے۔ الگ الگ رنگ ونسل،زبان و ثقافت ،تہذیب و تمدن ہونے کے باوجود یہاں ایک جمہوری نظام دہائیوں سے چل رہا ہے اور تمام لوگوں کو آئین و قانون کے مطابق برابر حقوق حاصل ہیں اور درکار ضروریات زندگی فراہم ہو رہی ہیں۔ہر پانچ بر س گزرنے کے بعد عوام ووٹ ڈالکر اپنی من پسند حکومت قائم کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کی مرضی کا خیال رکھا جاتا ہے۔
جہاں تک جمہوری نظام کا تعلق ہے یہ ایک بہترین نظام ہے، جس میں ایک عام آدمی کی قدرو قیمت دیکھنے کو مل رہی ہے۔بہت سارے ایسے ممالک بھی ہیں، جہاں جمہوری نظام قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن پھر بھی سرمایہ داروں اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں حکومت کی لگام دی جاتی ہے ۔ انتخابی نظام اور انتظامی نظام میں دھاندلیاں کی جاتی ہیں اور عوامی سپورٹ ہونے کے باوجود لیڈروں کو جیل کی چار دیواریوں میں قید کیا جاتا ہے یا پھر مار ڈالا جاتا ہے۔ایسے حکمرانوں کو شام کی موجودہ صورتحال سے سبق حاصل کرنا چا ہیے اور عوام کو بااختیار بنانے کے لئے عوام کی جانب ہی رجوع کرنا چا ہیے اور ان کی مرضی کو ہی مقدم ماننا چا ہیے، تاکہ ملک میں فساد برپا نہ ہو سکے جیسے کہ روز ایسے ممالک میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لوگ سڑکوں پر نکل کرحکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ہڑتال کی جاتی ہے۔ایسے ممالک کے مسند اقتدار پر بیٹھے لوگوں کو دنیا میں ہورہی تبدیلوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چا ہیے اور شام کے حالات سے سبق حاحل کرنا چا ہیے تاکہ ان ملکوں میں امن کا ماحول قائم رہ سکے اور عام لوگ ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار ہو سکے ۔