مختار احمد قریشی
” خاموش کو بے وقوف، ملنسار کو ڈرپوک، سخی کو فالتو، دستیاب کو بے کار، جھوٹے اور بد اخلاق کو اصول پسنداور چاپلوس کو ہر فن مولاسمجھا جاتا ہے“۔
ہماری موجودہ دنیا میں، جہاں ہر انسان اپنی زندگی کے مختلف پہلوو¿ں کو جانچنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، ایسے وقت آتے ہیں جب معاشرتی تعلقات اور افراد کی قدر و قیمت میں تضاد
محسوس ہوتا ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ معاشرتی منظر پر خاموش اور محتاط افراد کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے، ملنسار اور دل لگی کرنے والوں کو ڈرپوک تصور کیا جاتا ہے، سخی اور دستگیر افراد کو فالتو سمجھا جاتا ہے، جو لوگ ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے دستیاب ہوتے ہیں انہیں بے کار گردانا جاتا ہے، اور جھوٹ بولنے اور بد لحاظ رہنے والے افراد کو اصول پسند اور کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب صورتحال نہ صرف ہمارے معاشرتی سٹرکچر کی خرابی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ ہماری اقدار اور اخلاقی فریم ورک کے بحران کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔
خاموشی کا مفہوم اور بے وقوف کی حیثیت
خاموشی ایک نہایت اہم اور طاقتور اوزار ہے۔ خاموش رہنا دراصل زیادہ بولنے اور تنازعات میںپڑنے سے بچنے کا ایک طریقہ ہے۔ خاموش رہنے والے افراد اکثر سوچ سمجھ کر بات کرتے ہیں اور دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے، معاشرتی دباو¿ کے باعث، ایسے افراد کو بے وقوف اور کمزور سمجھا جاتا ہے۔ وہ افراد جو خاموشی اختیار کرتے ہیں، انہیں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا موقع کم ملتا ہے، اور اس وجہ سے ان کے ساتھ اکثر غلط فہمی ہوتی ہے۔ اس خاموشی کو بہکانے والے کچھ لوگ اس کو کمزوری یا بے وقوفی کے طور پر دیکھتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خاموش رہنا ہر موقع پر رد عمل دکھانے سے بہتر ہوتا ہے، کیونکہ اس سے انسان اپنے حالات کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے اور پھر مناسب فیصلہ کر سکتا ہے۔
ملنسار افراد کی تعریف اور ان کی کمزوری
ملنساری کو اکثر ایک خوبی کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن بعض اوقات یہ ایک نقص کے طور پربھی ظاہر ہوتی ہے۔ لوگ جنہیں دوسرے لوگوں سے بات چیت کرنے کا شوق ہوتا ہے اور جو ہرموقع پر خوش رہنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں اکثر ڈرپوک اور غیر سنجیدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کسی بھی طرح کا سچائی کا فقدان نہیں ہے۔ ملنساری اور خوش مزاجی کے باوجود، وہ افراد بہت گہرے اور حساس ہوتے ہیں، لیکن ان کی مسکراہٹ اور آسانی سے لوگوں سے بات کرنے کی عادت انہیں سطحی اور کمزور سمجھنے کے لیے ایک سبب بن جاتی ہے۔ حالانکہ حقیقت میں وہ زندگی کے مختلف پہلوو¿ں کو بہت زیادہ سنجیدہ طریقے سے دیکھتے ہیں اور ان کے اندر دوسروں کی مدد کرنے کی ایک گہری خواہش ہوتی ہے۔
سخی کو فالتو سمجھنا
سخاوت ایک عظیم صفت ہے جو انسان کی بلند روحانیت اور انسانی قدروں کا عکاس ہے۔ سخی وہ شخص ہوتا ہے جو دوسروں کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے، چاہے وہ مادی ہو یا جذباتی۔ ایسے افراد جو دل کھول کر دوسروں کی مدد کرتے ہیں، انہیں معاشرتی سطح پر اکثر فالتو اور غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ لوگ یہ فرض کرتے ہیں کہ سخاوت کا مقصد صرف اس کا فائدہ ہے جو کسی کے لیے قربانی دیتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ سخی وہ شخص ہے جو اپنے دل سے دوسروں کی خدمت کرتا ہے، اور یہ ہمیشہ اس کی ذات کی طاقت اور انسانیت کی بلند سطح کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر بھی معاشرتی طور پر ایسے افراد کو اکثر بے کار اور وقت ضائع کرنےوالے سمجھا جاتا ہے، حالانکہ وہ انسانیت کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔
دستیاب کو بے کار سمجھنا
دستیاب رہنا بھی ایک عظیم فضیلت ہے، جو انسان کی خودداری اور خیرات کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ لوگ جو ہمیشہ دوسروں کے لیے دستیاب ہوتے ہیں اور ہر وقت ان کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، انہیں بے کار یا وقت ضائع کرنے والے سمجھا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں،جب کوئی شخص اپنے وقت کا بیشتر حصہ دوسروں کی خدمت میں گزارنے کے لیے وقف کرتاہے، تو اسے معاشرتی سطح پر اکثر کم قدر دی جاتی ہے۔ انہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ خود کا کوئی مقصد نہیں رکھتے اور بس غیر ضروری طور پر دوسروں کی مدد کر رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا ہر عمل کسی نہ کسی مقصد کی تکمیل کے لیے ہوتا ہے، اور یہ خود ان کے لیے بھی اطمینان کا سبب بنتا ہے۔
جھوٹے اور بد لحاظ کو اصول پسند سمجھنا
آج کے معاشرتی نظام میں ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جھوٹ بولنے والے، بد اخلاق، اور اخلاقی حدودسے تجاوز کرنے والے افراد کو کامیاب اور اصول پسند سمجھا جاتا ہے۔ یہ افراد اپنی باتوں میںسچائی کی بجائے چالاکی اور فریب استعمال کرتے ہیں، اور ان کے ارد گرد کا ماحول بھی ان کے طرز عمل کو بڑھاوا دیتا ہے۔ ان کی کامیابی صرف اس بات پر مبنی ہوتی ہے کہ انہوں نے معاشرتی طور پر خود کو دوسروں سے کہیں زیادہ طاقتور اور زیادہ اہم بنا لیا ہے، چاہے اس کے لیے انہیں جھوٹ بولنا پڑا ہو یا لوگوں کی عزت و تکریم کو نقصان پہنچانا پڑا ہو۔ بدقسمتی سے،ان افراد کو معاشرے میں اصول پسند اور کامیاب کے طور پر دیکھنا معاشرتی سطح پر ایک سنگین خامی ہے۔ ان کی کامیابی میں حقیقت کا فقدان ہوتا ہے اور ان کی موجودگی معاشرتی نظام میں مزید فساد کا باعث بنتی ہے۔
معاشرتی تنقید اور اس کے اثرات
یہ سب صورتحال معاشرتی تنقید کا حصہ بنتی ہے، جس کا اثر فرد کی شخصیت اور ترقی پر پڑتاہے۔ جب ہم ان تمام صفات کو منفی انداز میں دیکھتے ہیں تو نہ صرف ہم اپنے معاشرتی نظام کی خوبصورتی کو نظر انداز کرتے ہیں بلکہ ہم ان افراد کی قدر کم کرتے ہیں جو اصل میں معاشرتی تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس سب کی اصلاح کے لیے ہمیں اپنی اقدار پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم دوسروں کی خوبیوں کو پہچان سکیں اور ان کا احترام کر سکیں، خواہ وہ خاموش ہوں، ملنسار ہوں، سخی ہوں، یا دستیاب رہنے والے ہوں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر فرد کی شخصیت میں مخصوص صلاحیتیں اور خوبیاں ہوتی ہیں، اور یہ ضروری نہیں کہ کسی کی کامیابی کا پیمانہ صرف اس کی ظاہری خصوصیات پر مبنی ہو۔ سچائی، ایمانداری، اور انسانیت کی قدر کو معاشرتی سطح پر فروغ دینا ہمارا مقصد ہونا چاہیے تاکہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ سکیں جہاں ہر فرد کی اصل قیمت پہچانی جائے اور اس کی عزت کی جائے۔ معاشرے میں خاموش، ملنسار، سخی، اور دستیاب رہنے والوں کی اہمیت کو سمجھنے اور انہیں ان کا مناسب مقام دینے کے لیے ایک اجتماعی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ شعور صرف الفاظ اور نظریات تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ عمل میں بھی جھلکنا چاہیے۔ ایک بہتر معاشرتی ڈھانچے کی تعمیر اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ان افراد کی قدر کرے جو خاموش، ملنسار، اور سخی ہیں، تو ہمیں اپنی تعلیم اور تربیت کے نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ خاموشی ایک طاقت ہے، ملنساری ایک خوبی ہے، سخاوت ایک عظمت ہے، اور ہر وقت دستیاب رہنا انسانیت کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔
تعلیمی نظام کا کردار:
تعلیمی اداروں میں بچوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ کسی کی خاموشی کو کمزوری نہ سمجھیں بلکہ اس کے خیالات اور جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ انہیں یہ بھی سکھایا جائے کہ دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے ساتھ خلوص کے ساتھ پیش آنا نہ صرف انفرادی طور پر فائدہ مند ہے بلکہ یہ معاشرتی ترقی کے لیے بھی اہم ہے۔
خاندانی اقدار کی تشکیل:
خاندان وہ بنیادی یونٹ ہے جہاں بچے اپنے اخلاقی اور سماجی رویے سیکھتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو دوسروں کی خوبیوں کو پہچاننے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی تربیت دیں۔ خاموش افراد کے خیالات کی قدر کریں، ملنسار افراد کی خوش اخلاقی کو سراہیں، اور سخاوت کو زندگی کا ایک لازمی حصہ بنائیں۔
معاشرتی رویے میں تبدیلی کی ضرورت
معاشرتی سطح پر ایک ایسی سوچ کو فروغ دینا ہوگا جو ہر فرد کی خوبیوں کو تسلیم کرے۔ یہ تبدیلی تبھی ممکن ہے جب ہم اپنی سوچ اور رویے میں مثبت تبدیلی لائیں گے۔
مثبت رویے کو اپنانا:
خاموش رہنے والوں کو بے وقوف یا کمزور سمجھنے کے بجائے، ہمیں ان کی باتوں کو سننا اور ان کی رائے کو سمجھنا چاہیے۔ جو لوگ ملنسار ہیں، انہیں ڈرپوک کے بجائے سماجی رابطے کو مضبوط کرنے والے افراد کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اسی طرح، سخی افراد کو فضول خرچ سمجھنے کی بجائے ان کی مدد کے جذبے کو سراہنا ضروری ہے۔
جھوٹے اور بد لحاظ لوگوں کی مخالفت:
معاشرتی نظام میں ان لوگوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہوگا جو جھوٹ اور بد اخلاقی کو اصول پسندی کے لبادے میں چھپاتے ہیں۔ ایسے افراد کو سماجی سطح پر کامیاب قرار دینے کے بجائے ان کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنانا ضروری ہے۔
دستیاب رہنے کی قدر:
وہ لوگ جو ہمیشہ دوسروں کے لیے موجود رہتے ہیں، وہ کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ ان کی خدمات اور وقت کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ انہیں بے کار سمجھنے کے بجائے ان کے خلوص اور قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔
مذہبی اور روحانی پہلو
مذہب اور روحانیت بھی ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ خاموشی، سخاوت، اور خلوص اعلیٰ ترین صفات ہیں۔ ہر مذہب دوسروں کی مدد کرنے، سچ بولنے، اور انسانیت کی خدمت کرنے پر زور دیتا ہے۔ اگر ہم اپنی مذہبی تعلیمات کو صحیح طریقے سے سمجھیں اور ان پر عمل کریں تو ہم ان تمام منفی رویوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں جو ہماری موجودہ صورتحال کو خراب کر رہے ہیں۔
مثبت تبدیلی کے نتائج
اگر ہم اپنے معاشرتی رویے میں تبدیلی لائیں اور خاموش، ملنسار، سخی، اور دستیاب افراد کی قدر کریں تو اس کے کئی مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔افراد کے درمیان اعتماد اور احترام بڑھے گا، اور معاشرتی اتحاد مضبوط ہوگا۔انفرادی ترقی: ہر فرد کو اپنی خوبیوں کے مطابق کام کرنے کا موقع ملے گا، جو کہ ان کی انفرادی ترقی میں مددگار ثابت ہوگا۔
(کالم نگار ایک مصنف ہیں اور پیشہ سے ایک استاد ہیں ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)