اتوار, دسمبر ۸, ۲۰۲۴
4.1 C
Srinagar

شری رتن ٹاٹا کو اُن کی بے پناہ خدمات کے لئے شاندار خراج


از: نریندر مودی*
شری رتن ٹاٹا جی کو ہم سے جداہوئے ایک مہینے کا عرصہ گزرا ہے۔ چہل پہل والے شہروں اور قصبوں سے لے کر دیہات تک، معاشرے کے ہر طبقے میں ان کی غیر موجودگی کو شدت سے محسوس کےا جا رہا ہے۔ اُن کی جدائی پر سماج کا ہر ایک طبقہ بالخصوص تجربہ کار صنعت کار، ابھرتے ہوئے کاروباری اور محنتی پیشہ ور افراد ان کے سانحہ ارتحال پر مغموم ہیں۔ جو ماحولیات کو لے کر بیدار ہیں اور انسان دوستی کے لئے وقف ہیں، وہ بھی مساوی طور پر غمزدہ ہیں۔ ان کی عدم موجودگی کو نہ صرف پوری قوم بلکہ دنیا بھر میں شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
نوجوانوں کے لیے، شری رتن ٹاٹا ایک ترغیب کار تھے۔ وہ ان کو اس بات کی یاد دلاتے تھے کہ خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے ساتھ ساتھ کوشش اور کامیابیاں حاصل کرنے کا عمل پورے جوش و جذبے کے ساتھ اور انکساری کے ساتھ انجام دیا جاسکتا ہے۔ دیگر افراد کے لئے وہ بھارتی صنعت کی عمدہ ترین روایات کی نمائندگی کرتے تھے اور سالمیت، عمدگی اور خدمت جیسی اقدار کے لئے اُن کی عہد بندگی اپنی جگہ محکم تھی۔ ان کی قیادت میں ٹاٹا گروپ نے نئی بلندیوں کو چھوا۔ احترام، ایمانداری اور پوری دنیا میں معتبریت حاصل کی۔ اس کے باوجود وہ اپنی حصولیابیوں کو بہت ہلکے پھلکے انداز میں پوری انکساری اور وضع داری کے ساتھ پیش کیا کرتے تھے۔


شری رتن ٹاٹا دیگر افراد کے خوابوں کو بھی غیر متزلزل حمایت فراہم کرتے تھے۔ یہ ان کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک تھی۔ حالیہ برسوں کے دوران وہ بھارت کے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کی رہنمائی کرنے، متعدد ترقی پذیر منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے معروف ہوئے تھے۔ وہ نوجوان صنعت کاروں کی امیدوں اور امنگوں کو سمجھتے تھے اور بھارت کے مستقبل کو سنوارنے کے معاملے میں اُن کی صلاحیت کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ ان نوجوانوں کی کوششوں کو تقویت بہم پہنچا کر ،انہوں نے خواب دیکھنے والوں کی ایک پوری پیڑھی کو بااختیار بنایا تاکہ وہ بے باکانہ طور پر خدشات کا سامنا کر سکیں اور بندھے ٹکے اصولوں سے تجاوز کر سکیں۔ اس سے اختراع اور صنعت کاری کی ایک نئی ثقافت بہم پہنچانے کے معاملے میں دور رَس اثرات مرتب ہوئے ہیں، جس کے بارے میں مجھے پوار یقین ہے کہ اس کا استعمال آنے والی دہائیوں میں بھارت پر اپنے مثبت اثرات مرتب کرتا رہے گا۔
انہوں نے لگاتار عمدگی کی علمبراری کی، بھارتی صنعت کاروں سے گذارت کی کہ وہ عالمی معیارات اور شناخت قائم کریں۔ یہ تصوریت، میرے خیال سے مستقبل کے قائدین کو بھارت کو عالمی درجے کی حامل عمدگی کا مترادف بنا دے گی۔
ان کی عظمت محض بورڈ روم یا اپنے جیسے دیگر انسانوں کی مدد تک ہی محدود نہیں تھی، وہ تمام تر ذی روح کے تئیں فیاضی سے سرشار تھے۔ جانوروں تئیں ان کی گہری محبت بہت مشہور تھی اور وہ جانوروں کی فلاح و بہبود پر مرتکز تمام تر ممکنہ کوششوں میں اپنی جانب سے امداد فراہم کیا کرتے تھے۔ وہ اکثر اپنے کتوں کی تصاویر ساجھا کیا کرتے تھے۔ وہ ان کی زندگی کے اتنے ہی بڑے حصے تھے جیسے کہ ان کی دیگر کاروباری صنعتیں۔ ان کی زندگی ہم سے کو اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ اصل قیادت کا تعین کسی شخص کی اپنی حصولیابیوں سے نہیں بلکہ از حد خستہ حال لوگوں کی نگہداشت کرنے کی اہلیت سے ظاہر ہوتی ہے۔
کروڑوں بھارتیوں کے لئے شری رتن ٹاٹا کی حب الوطنی نے بحران کے وقت میں روشن ترین علامت کی حیثیت اختیار کی۔ انہوں نے ممئی 11/26 دہشت گردانہ حملے کے فوراً بعد معروف تاج ہوٹل کو بڑی سرعت سے کھولا۔ یہ ملک کے لئے جوش و جذبے کا ایک نعرہ تھا-بھارت متحد ہو کر کھڑا ہے اور دہشت گردی کے آگے ہر گز سرجھکانے والا نہیںہے۔
ذاتی طور پر مجھے گذرشتہ برسوں میں اُن کو بہت قریب سے جاننے کا شرف حاصل ہوا۔ ہم نے گجرات میں بڑے قریب ہوکر کام کیا تھا جہاں انہوں نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی تھی۔ اُن میں ایسے متعدد پروجیکٹس شامل تھے جن کو لے کر وہ از حد پر جوش تھے۔ محض چند ہفتے قبل، میں اسپیل کے صدر جناب پیڈرو سانچیز کے ساتھ وڈودرا میں تھا اور ہم نے مشترکہ طور پر ایک طیارہ کمپلیکس کا افتتاح کیا تھا جہاں بھارت میں C-295 طیارے بنائے جائیں گے۔ یہ شری رتن ٹاٹا جی ہی تھے جنہوںنے اس پر کام شروع کیا تھا۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ شری رتن ٹاٹا کی عدم موجودگی شدت سے محسوس کی جائے گی۔
مجھے یاد ہے کہ شری رتن ٹاٹا جی بڑے دانشور تھے۔ وہ مختلف موضوعات پر اکثر و بیشتر لکھا کرتے تھے خواہ یہ حکمرانی کے موضوعات ہوں، حکومت کے تئیں امداد فراہم کرنے کے معاملے میں ستائش کا اظہار ہو یا انتخابی فتوحات کے بعد مبارکبادی پیغامات ارسال کرنے کا موضوع ہو۔ ہمارا قریبی تعلق قائم رہا جب میں مرکز کی جانب منتقل ہوا اور وہ تعمیر قوم کی ہماری کوششوں میں ایک کلی طور پر وقف شراکت دار کے طور پر کار فرما رہے۔ سوچھ بھارت مشن کے تئیں شرع رتن ٹاٹا کی امداد بطور خاص میرے دل میں خاص مقام رکھتی ہے۔ وہ عوامی تحرک کے زبردست علمبردار تھے۔ صفائی ستھرائی، حفظانِ صحت اور شفافیت کی اہمیت کو سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ یہ بھارت کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ سو چھ بھارت کی دسویں سالگرہ کے موقع پر ماہ اکتوبر کے اوائل میں ان کا دلی جذبات پر مبنی ویڈیو مجھے اب بھی یاد ہے۔ عوامی طور پر منظر عام پر آنے کا یہ ان کا آخری سلسلہ تھا۔
ایک دیگر موضوع جو ان کے دل کے بہت قریب تھا، وہ تھا حفظانِ صحت خصوصاً کینسر کے خلاف نبرد آزمائی۔ مجھے دو سال قبل آسام میں منعقد ایک پروگرام کی یاد آتی ہے جہاں ہم نے مشترکہ طور پر ریاست میں مختلف النوع کینسر ہسپتال کو افتتاح کیا تھا۔ اپنے کلمات اس وقت انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ وہ اپنے زندگی کے تمامی سالوں کو حفظانِ صحت کے لئے وقف کرنے کے خواہش مند ہیں۔ صحت اور کینسر کے معالجے کو لائق رسائی اور قابل استطاعت بنانے کی ان کی کوششوں کی جڑیں اس گہری دردمندی میںمضمر تھیں جو وہ اس مرض سے جوجھ رہے افراد کے تئیں رکھتے تھے۔ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ ایک مبنی بر انصاف معاشرہ وہ ہوتا ہے جو اپنے سب سے خستہ حال طبقے کی حمایت میں کھڑا ہوتا ہے۔
آج ہم جب انہیں یاد کرتے ہیں تو ہمیں اس معاشرے کی یاد آتی ہے جس کی تصوریت ان کے ذہن میں تھی جہاں کاروبار بھلائی کی ایک قوت کے طور پر خدمت انجام دے۔ جہاں ہر کس و ناکس کے مضمرات کی قدر ہو اور جہاں ترقی کا تعین سب کی خیر و عافیت اور مسرت کے پیمانے پر ممکن ہو۔ وہ ان زندگیوں میں زندہ ہیں جن کو انہوں نے چھوا اور وہ خواب جو انہوں نے دیکھے اور پروان چھڑھائے۔ پیڑھیاں ان کے تئیں احسان مند ہوں گی جب وہ یہ محسوس کریں گی کہ انہوں نے بھارت کو بہتر، مبنی بر رحم دلی اور مزید امید کا حامل مقام بنایا۔

مصنف جمہوری بھارت کے وزیر اعظم ہیں

Popular Categories

spot_imgspot_img