وسطی ضلع گاندربل کے گگن گیر سونہ مرگ علاقے میں اتوار کی شام کو مشتبہ ملی ٹینٹوں نے اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ڈاکٹر سمیت سات افراد ہلاک جبکہ پانچ دیگر زخمی ہوئے ہیں۔اس سے قبل شوپیان میں ایک غیر مقامی مزدور کو بندوق برداروں نے گولیاں مار کر قتل کردیا ۔جموں وکشمیر میں عوامی حکومت کے قیام کے بعد یہ ایسے دو دلخراش واقعات ہیں ،جس نے کشمیر میں امن کو برقرار رکھنے پر پھرسولات کھڑے کئے ۔جموں وکشمیر میں تین دہائیوں سے جاری نامساعد حالات میں بندوق کی گھن گرج اب بھی موجود ہے ۔جس کا اعتراف جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گور نرمنوج سنہا نے قومی پولیس دن کی مناسبت سے منعقدہ تقریب کے دوران کیا ۔انہوں نے کہا کہ پولیس کو جموں وکشمیر میں ’دہشت گردی ‘ کے مکمل خاتمے کے لئے مزید جاں فشانی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔کیوں کہ ” دہشت گردی “ کا خطرہ اب بھی برقرار ہے ۔انہوں نے کہا کہ معصوم عام شہریوں کا قتل نا قابل قبول ہے اور مجرموں کو تلاش کرکے اُنہیں اپنے انجام کو پہنچایا جائے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ گگن گیر سونہ مرگ سانحہ نے نہ صرف غیر مقامی معصوم شہریوں کے خاندانوں کو ہمیشہ کے لئے غم کے بھنور میں ڈال دیا بلکہ بڈگام سے تعلق رکھنے والے مقامی ڈاکٹر شہنواز کے افراد خانہ کو بھی عمر بھر کے غم میں مبتلاءکیا ۔اس سانحہ میں معصومین کی جانیں تلف ہونا افسوسنا ہے ۔ایک ڈاکٹر کی ایسی موت نے نہ جانیں کتنی زندگیوں کو موت کے دھانے پر پہنچادیا ۔کیوں کہ ایک ڈاکٹر کو اللہ تعالیٰ یہ شرف عطا کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شفا سے انسانی زندگیوں کو بچاسکتا ہے ۔ صحیح معنوں میں ڈاکٹرز حضرات بغیر کسی امتیاز کے انسانوں کی خدمت کرتے ہیں اور اس سے بہتر کوئی خدمت نہیں ہوسکتی۔ انسان کی صحت مند زندگی میں ڈاکٹروں کا رول کافی اہم ہوتا ہے اس لئے اس روئے زمین پر ڈاکٹر کو احترام کا درجہ دیا جاتا ہے اور صحیح معنوں میں ڈاکرز انسان کو ایک نئی زندگی عطا کرتے ہیں۔لیکن اگر بے رحم طریقے سے ڈاکٹر کو ہی قتل کیا جائے ،تو انسانیت کی خدمت کون کرے گا ؟ایسے واقعات کو انجام دینے والے کیا کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔کیا معصومین کو قتل کرکے بھی کوئی مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو ناپسندیدہ قرار دیا ۔اس لئے قرآن شریف میں کہا گیا کہ ایک معصوم انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔جو ایسے واقعات انجام دیتے ہیں ،وہ یقیناً انسان کہلانے کا حق نہیں رکھتے ۔
گگن گیر سونہ مرگ سانحہ نے یہ ثابت کیا کہ جموں وکشمیر خاص طور پر وادی کشمیر میں امن وامان کو برقرار رکھنا سیکیورٹی ایجنسیز اور عوامی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے ۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے جہاں سیکیورٹی فورسز صحیح حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے ،وہیں ایسے واقعات کو روکنے کے لئے عام لوگوں کو اپنا کردار اور رول ادا کرنا چاہیے ۔ایسے واقعات پر خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی بلکہ ایسے واقعات پر آواز بلند کر نے کی ضرورت ہے ۔تاکہ پھر کسی معصوم کا خون نہ بہے ۔قیام امن ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ایسے عناصر کو سماج سے الگ تھلگ کرنے کی ضرورت ہے ،جو معصومین کا خون نا حق بہا تے ہیں ۔خون ِ ناحق بہانے والوں کو یاد رکھنا چاہیے ،اس طرح کے شیطانی فعل سے کوئی مقصد دنیا میں اورنہ ہی آخرت میں حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ایسی سوچ کو ترک کرنے کی ضرورت ہے ،جو معصومین کے خون کو رنگنے کا منصوبہ بناتی ہے ۔یہ منفی سوچ صرف زخم پیچھے چھوڑ جاتی ہے اور گگن گیر سانحہ نے بھی زخم ہی پیچھے چھوڑ دیئے اور کچھ نہیں۔
