پیر, جولائی ۷, ۲۰۲۵
31.3 C
Srinagar

قدرتی حسن وجمال سے مالا مال کوٹرنکہ سیاحوں کا منتظر

وجاہد چودھری پونچھ، جموں

جموں و کشمیر کا ضلع راجوری ایک تاریخی اور قدرتی وسائل سے بھرپور علاقہ ہے جو اپنی دلکش وادیوں، قدیم قلعوں، اور رنگا رنگ ثقافت کے باعث سیاحتی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، حکومت کی عدم توجہی اور بنیادی ڈھانچے کی کمی کے باعث یہ علاقہ اپنی سیاحتی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھانے میں اب تک ناکام رہا ہے۔راجوری کا سیاحتی منظرنامہ نہایت شاندار ہے۔یہاں کے خوبصورت پہاڑ، سرسبز وادیاں، اور تاریخی مقامات جیسے قلعہ ڈیرہ کی گلیاں اور تھنہ منڈی کے قدیم قلعے ایک منفرد کشش رکھتے ہیں۔ ان مقامات پر سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے، لیکن مناسب سہولیات اور انفراسٹرکچر کی کمی نے ان علاقوں کو سیاحت سے محروم رکھا ہے۔ راجوری کے شمال میں واقع کوٹرنکہ کا شمار نسبتاً ٹھنڈے اور پُرفضا مقامات میں ہوتاہے۔ یہاں کے پہاڑوں کے اوپر سات جھیلیں ہیں جن کے نام سمارٹ سر،کٹوریا سر،بھاگ سر،کونسر ناگ،نن سر،گھم سر اور کال ڈھچھنی قابل ذکر ہیں۔ کوٹرنکہ کے باشندے عبدالغفور آوانہ نے بتایا کہ سمارٹ سر دیکھنے میں بہت خوبصورت ہے۔ اس کا پانی شیشے کی طرح صاف وشفاف ہے۔ تقریباً یہ دو کلومیٹر طویل ہے،اور بھاگ سر کا ایک سِرا راجوری کے ساتھ ملتا ہے تو دوسرا کشمیر کے ضلع شوپیاں کی ڈھونکوں تک پہنچتا ہے۔ اس کے ارد گرد قبائلی لوگوں کی ڈھونک ہیں۔ خیال رہے کہ ڈھونک ان علاقوں کو کہاجاتا ہے جہاں پر قبائلی لوگ اپنے مویشیوں کو موسم سرما میں لے جاتے ہیں۔ اس کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔

گھم سر کی بات کی جائے تو یہ چاروں طرف اونچے پہاڑوں کے بیچ ڈھکی ہوئی ہے اور بہت خاموش جھیل ہے۔ اس لیے اسے گھم سر کہا جاتا ہے۔ اس کا پانی زمین کے اندر ہی اندر سما جاتا ہے۔ کال ڈھچھنی سر کا پانی بالکل سیاہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کا پانی وادی درہال میں جاتا ہے۔ اس کی خصوصیت یہ بھی ہیں کہ اس کا پانی دل بناکر بہتا ہے۔ کونسر ناگ ایک ایسی جھیل ہے جو بھاگ سر سے بھی لمبی ہے۔ اس کا پانی سانپ کی طرح لمبا اور موڑا ہوا رہتا ہے۔ یہ بدہل سے محض پچیس کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس کے بھی ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے اور کٹوریہ سر، دیکھنے میں کٹوری کی طرح لگتی ہے اسی وجہ سے اسے کٹوریہ سر کہا جاتا ہے جو نہایت ہی خوبصورت ہے۔ چالیس سالہ لطیف آوانہ ترگائیں کے رہاشی نے بتایا کہ یہ جھیلیں ولر اور ڈل کو پیچھے چھوڑتی ہیں۔شرط یہ ہے کہ ان تک سڑک چلی جائے، وہیں ترگاؤں اپر کے رہاشی لیاقت دھکڑ نے بتایا کہ اس پہاڑ کے اوپر تلیانی اور مرگ جیسی خوبصورت جگہ ہیں جن کا مقابلہ سونا مرگ اور گلمرگ کیا دودھ پتھری بھی نہیں کر سکتے اگر انہیں سیاحت کے نقشہ پر لایا جاے تو یہاں لاکھوں لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہو سکتے ہیں۔

حال ہی میں جموں وکشمیر بھر سے شوقین حضرات نے کوٹرنکہ کے قدرتی مناظر دیکھنے کے لئے یہاں کا دورہ کیا، یہ علاقہ ضلع راجوری کے تمام علاقوں میں سب سے خوبصورت ہے۔اس کے خوبصورت مناظر کو سیاحوں نے عکس بندی کی جنہیں بعد میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پوسٹ کرکے ناظرین سے داد تحسین حاصل کیں۔ سماجی رابطے سائٹ پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں کوٹرنکہ کے قدرتی حسن اور دلکش نظارے نظروں کو خیرہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔کوٹرنک سے مشرق میں ایک تاریخی گاؤں پنجناڑہ آباد ہے۔جہاں کے ضلعدار غلام محمد نے بتایاکہ یہ گاؤں تاریخی اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ خوبصورت ترین سیاحتی علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس گاوں کے اوپر پتلی نامی خوبصورت جگہ واقع ہے جو کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام گلمرگ سے بھی زیادہ خوبصورت ہے اور یہ گاوں اپنے گھنے درختوں اور وافر پانی کے لیے مشہور ہے۔ اس کی بائیں طرف کنڈی آباد ہے یہ گاؤں بھی گھنے درختوں اور دلکش مناظر فطرت کے لیے مشہور ہے۔ پہاڑ کے وسط میں بہنے والی دلفریب آبشاریں اس کے فطری حسن میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ بارش کے موسم میں اس علاقے کا قدرتی حسن اور بھی نکھر جاتا ہے۔

مگر آئینہ کا دوسرا رخ یہ ہے کہ قدرتی حسن وجمال سے مالا مال یہ علاقے حکومت کی عدمِ توجہ کا شکارہیں ضلع ہیڈ کوارٹر سے محض چالیس کلومیٹر کی دوری پر آباد، حکومت کی عدم توجہی کہ وجہ سے یہ علاقہ سیاحت کے اعتبار سے لوگوں کی نظروں سے بالکل اوجھل ہیں۔ یہاں سیاحتی مقامات پر جانے والی سڑکیں نہ صرف تنگ ہیں بلکہ خستہ حال بھی ہیں۔ تیس سالہ مقامی نوجوان شکیل انجم نے بتایا کہ یہاں موجود سہولیات برائے نام ہے۔ خواہ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اسکول ہو یا علاج و معالجے کے لئے قائم سب سنٹر، کسی بھی سرکاری ادارے میں مناسب سہولیات کا فقدان ہے۔ کنڈی کے نوجوان مجاہد خان نے بتایا کہ اس علاقے کو حکومت نے ہمیشہ نظر انداز کیا ہے ورنہ یہ علاقہ قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہے۔ انہوں نے کہا ”اگر اس علاقے کی قدرتی خوبصورتی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر توجہ دی جاتی تو نہ صرف یہ علاقہ ملک بھر میں ایک سیاحتی مقام کے طور پر سامنے آیا ہوتا بلکہ یہاں پر آباد بستی بھی روز گار و معیشت کے اعتبار سے ترقی یافتہ ہوتی۔“ حاجی محمد شفیع کا کہنا ہے اس علاقے میں سڑکیں، بجلی، اسکول اور طبی سہولیات کا فقدان ہے جس کی جانب انتظامیہ کو جتنی جلد ہو سکے توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔

ایک اور شہری سرجیت سنگھ ٹھاکر نے بتایا کہ انہیں یہاں زندگی گزارنے میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہاں کی سڑکیں خستہ حال ہیں اور باقی بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ سردیوں کے موسم میں ان پر مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں کیونکہ ان اوقات میں غذائی اجناس کی فراہمی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو تی ہیں۔ راجوری سے یہاں تشریف لانے والے پینتس سالہ کلدیپ سنگھ نے کہا کہ اگر دنیا میں کہیں جنت ہے تو وہ کوٹرنکہ ہے انہوں نے کہاکہ اگر جنت سے واپس آ کر کہیں رہنے کیلئے کہا جاے تو میں کوٹرنکہ پسند کروں گا وہیں محمد شفیق مالہ جو جموں سے تشریف لائے تھے انہوں نے کہا جموں میں گرمی اس قدر تھی جیسے تندور ہو اور یہاں سے واپس جانے کا دل نہیں کرتا کیونکہ یہاں زندگی گزارنے کا سکون ہے یہ ٹھنڈی ہوائیں یہاں سے جانے ہی نہیں دیتی ہیں۔

سیاحتی ترقی میں حکومت کی عدم دلچسپی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ علاقے میں سڑکوں کی حالت خراب ہے، بجلی اور پانی کی سپلائی میں تسلسل نہیں، اور ہوٹل یا گیسٹ ہاؤسز کی تعداد بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ، سیاحتی مراکز کی تشہیر کا فقدان بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ نتیجتاً، ملکی اور غیر ملکی سیاح اس علاقے کی خوبصورتی سے ناواقف رہتے ہیں اور راجوری کی سیاحتی صنعت پیچھے رہ جاتی ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مقامی لوگوں کے روزگار کے مواقع بھی سیاحت کی عدم ترقی کی وجہ سے محدود ہیں۔ اگر حکومت اس علاقے میں سیاحت کے فروغ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے تو نہ صرف یہاں کی معیشت میں بہتری آسکتی ہے بلکہ مقامی لوگوں کو بھی روزگار کے مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ، حکومت کو چاہئے کہ وہ اس علاقے کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اقدامات کرے اور یہاں کے ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرے۔ اگر سیاحوں کے لیے بہتر سہولیات اور انفراسٹرکچر فراہم کیا جائے تو راجوری کا یہ علاقہ عالمی سیاحت کا مرکز بن سکتا ہے۔

اس ضمن میں تحصیلدار کوٹرنکہ سید ساحل نے بتایا کہ اس علاقے کا پروپوزل میں اعلیٰ حکام تک پہنچاؤں گا،تاکہ یہاں کی خوبصورتی کو دو بالا کیا جا سکے اگر دیکھا جاے تو سب ضلع کوٹرنکہ میں پتلی،ننگا تھب،کیسری ہل،پھلواڑی،ساتھ جھیلیں،بدہل میں نمبل اور کلہاڑ جیسے خوبصورت مقامات ہیں جن پر توجہی کی سخت ضرورت ہے۔وہیں محکمہ ٹوریزم کے اسسٹینٹ ڈائریکٹر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گی تو ان کا فون نہیں لگ پایا۔علاقے کے لوگ اس مضمون کی وساطت سے انتظامیہ سے گزارش کرتے ہیں کہ یہاں کے قدرتی حسن سے مالا مال علاقہ جات کو سیاحت کے نقشہ پر لایا جائے تاکہ وادی کشمیر کی طرزپر یہاں بھی سیاح تشریف لائیں، کیونکہ پہاڑ کی چوٹیاں، یہاں کا خوش گوار موسم، رنگا رنگ پرندے، پودے، جنگلات، اونچے لمبے درخت، بہتے جھرنے، زمین سے ابلتے چشمے، طلوع اور غروب آفتاب کے مناظرسیاحوں کے لیے بے پناہ کشش رکھتے ہیں۔

راجوری کے علاقے میں سیاحت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر سڑکوں کی مرمت، بنیادی سہولیات کی فراہمی، اور سیاحتی مراکز کی تشہیر پر توجہ دے۔ اس کے علاوہ، مقامی لوگوں کو سیاحتی صنعت میں شامل کرنے کے لیے تربیتی پروگراموں کا انعقاد بھی کیا جانا چاہیے۔ اس سے نہ صرف علاقے کی معیشت میں بہتری آئے گی بلکہ راجوری کا تاریخی اور ثقافتی ورثہ بھی محفوظ رہ سکے گا۔راجوری کا علاقہ اپنے قدرتی حسن اور تاریخی مقامات کی بدولت سیاحتی مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، لیکن حکومت کی عدم توجہی اور بنیادی سہولیات کی کمی نے اسے پیچھے رکھا ہے۔ اگر حکومت سنجیدہ اقدامات کرے تو یہ علاقہ نہ صرف مقامی معیشت کو فروغ دے سکتا ہے بلکہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سیاحت کا مرکز بھی بن سکتا ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img