وادی میں فصلوں کی کٹائی کا سیزن جہاں اپنے جو بن پر ہے ، وہیں دیہی علاقوں میں زمیندار اپنے کھیتوں میں بڑے جوش و جذبے کے ساتھ کام کرتے دیکھے جارہے ہیں۔ تاہم کھیتوں میں زیادہ تر بزرگ مرد اور خواتین کے ساتھ بیرون ریاستوں کے مزدور ہی کام کرتے نظر آرہے ہیں۔کہاجارہا ہے وادی کے اکثر نوجوان یا تو انتخانی دنگل میں زندہ باد، مردہ باد کے نعرے بُلند کررہے ہیں یا پھر درختوں کے سائے تلے کون جیتے گا اور کون ہارے گا کے بارے میں آپس میں محو گفتگو ہیں۔وادی کے نوجوان ایک طرف یہ صدا لگا رہے ہیں کہ یہاں بہت زیادہ بے روزگاری ہے اور پڑھے لکھے نوجوان روز گار کی تلاش میں سرگرداں ہیں لیکن دوسری جانب 40ہزار کے قریببیرون ریاستوں کے مزدور نہ صرف یہاں کے کھیت کھلیانوں میں کام کرتے نظر آرہے ہیں بلکہ سرکاری اور پرایﺅیٹ تعمیراتی کام بھی یہی لوگ انجام دیتے ہیں ۔ہزاروں کی تعداد میں کاریگر لوگ بھی نظر آرہے ہیں، بہت سارے لوگ چھاپڑی لگا کر پانی پوری بھیج کر اپنا روز گار کماتے ہیں، تو کوئی پھل فروٹ فروخت کر کے اپنا روزگار حاصل کررہا ہے ۔
اعدادوشمار کے مطابق یہ مزدور روزانہ تقریباُ تین کرووڑ روپئے یہاں سے کما کر لیتے ہیں۔یہاں یہ بات کہنا بے حد ضروری ہے کہ ان مزدوروں میں وہ غریب ا سکولی بچے بھی شامل ہیں ،جنہیں گرمی کی چُھٹی ملی ہے اور وہ ان چھٹیوں کے دوران یہاں کھیتوں اور باغوںمیں کام کر کے اچھا خاصہ پیسہ کماتے ہیں، اس طرح اپنی پڑھائی اور گھریلوں اخراجات پورا کرتے ہیں۔اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ وادی میں پڑھے لکھے بیروزگارنوجوان کی ایک فوج موجود ہے، جنہوں نے اچھی خاصی ڈگریاں حاصل کی ہیں لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ سب نوجوانوں کو سرکار روزگار فراہم کرے گی۔سرکار نے خود روزگار اسکیمیںمتعارف کی ہیں، جن سے یہ نوجوان استفادہ حاصل کر سکتے ہیں ۔وہ سرکار سے قرضے لیکر مختلف کاروباری یونٹ قائم کر سکتے ہیںاور وہ نہ صرف اپنے لئے روزگار کی سبیل پیدا کر سکتے ہیں بلکہ وہ دوسرے لوگوں کو بھی روزگار فراہم کر سکتے ہیں۔اصل میں ہمارے بچوں کو والدین کی جانب سے صحیح رہنمائی نہیں مل رہی ہے بلکہ وہ انہیں صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے دباﺅ ڈال رہے ہیںتاکہ وہ دوسرے لوگوں کو یہ دکھا سکیں کہ اُن کا بچہ ڈگری یافتہ ہے۔
وہ اپنے بچوں سے ہرگز اُن کی چاہت کے مطابق کام کرنے نہیں دیتے ہیں، اس کے برعکس یورپی ممالک میں والدین اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ کھلی آزادی بھی دیتے ہیں اور وہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو لیکر آگے چلتے ہیں، اپنے روزگار کے وسائل خود تلاش کرتے ہیں، اس طرح ایک خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں ۔وادی میں اس طرح کا فقدان نظر آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وادی کے اکثر بچے محنت و مشقت کرنے سے قاصر ہیں، وہ مفت کی روٹیاں سیکنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ انتخابات میں سیاسی لیڈران کے آگے پیچھے اپنا قیمتی وقت یہ سوچ کر ضائع کررہے ہیں کہ وہ اُن کو سرکاری نوکری اور دیگر مراعات عطا کریںگے لیکن بعد میں ایسا نہیں ہوتا ہے اورنہ ہی یہ سب کچھ سیاستدانوں کے لئے ممکن ہے۔وادی کے نوجوانوں کو اپنے پیروں پر خود کھڑا ہو کر محنت کرنی چاہئے ،خون پسینے کو ایک کر کے کھیت کھلیانوں میں کام کرنا چاہئے اور دیکھا دیکھی کے اس عالم سے دور رہنا چاہئے جس میں وادی کے اکثر لوگ گرفتار ہو چکے ہیں۔ تب جاکر وہ ایک خوشحال زندگی گذار سکتے ہیں ،جو بہرحال اربوں روپے کما نے سے بہتر ہے۔





