جموں کشمیر کی انتخابی سیاست روز بروز گرم ہوتی جارہی ہے ۔جہاں ایک طر ف سیاسی پارٹیوں کے لیڈران ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہے ہیں، وہیں دوسری جانب سیاسی پارٹیوں کے ورکر ایک دوسرے کے خلاف دست و گریباں ہیں، جس کی تازہ مثال ضلع شوپیاں کے بلپورہ گاﺅں سے ملتی ہے، جہاں اے آئی پی اور پی ڈی پی کے کارکنان آپس میں لڑپڑے اور درجنوں کارکنان زخمی ہوگئے ۔پولیس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور دونوں پارٹیوں نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔1987کے بعد یہ پہلا موقع ہے، جب وادی میں انتخانی مُہم اس طرح چل رہی ہے اور لوگ اپنے اپنے من پسند اُمیدواروں اور پارٹیوں کے لئے لڑائی جھگڑا کرنے پر تیار ہو چکے ہیں ۔تین دہائیوں کے دوران ہوئے انتخابات میں یہ پہلا موقعہ ہے جب لوگ جمہوری عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ان انتخابات میں نہ صرف مقامی سیاستدانوں کے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کواہم مانا جاتا ہے بلکہ مرکزی پارٹیوں کے لیڈارن نے بھی ان انتخابات میں مُہم کا حصہ بن کر انتخابات کو مزید دلچسپ بنایا ہے۔
گزشتہ روز ملک کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے رام بن ضلع میں اپنے اُمیدوار کے حق میں انتخابی مُہم میں حصہ لیا اور پارٹی ورکروں سے خطاب کیا۔وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اپنی تقریر میں ہمسایہ ملک پاکستان سے کہا ہے کہ اگر وہ یعنی پاکستان دہشت گردی ختم کرنے میں اپنا رول نبھاتا ہے، تو اُن کی سرکار اس ملک کے ساتھ نہ صرف بہتر رشتہ قائم کر سکتی ہے بلکہ اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ہر مرحلے پر مذاکرات کر سکتی ہے۔وزیر دفاع کا یہ بیان اس لئے انتہائی اہمیت کا حامل قرا ردیا جاتا ہے کیونکہ تقسیم ملک کے بعد کسی بھی مرکزی حکومت نے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے ماسوائے بی جے پی حکومت کے ،جو آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں دیکھنے کو ملی۔موجودہ مرکزی حکومت اگر پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر قائم کر کے پاکستان کو دہشتگردی سے پاک ملک بنانے میں کامیاب ہوتی ہے، تو اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ برصغیر میں لوگوں کی ترقی اور خوشحالی ممکن بن سکتی ہے ۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری دہشت گردی سے پریشان اور مالی طور کمزور ہو چکے بھارت اور پاکستان کے عوام کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی خوشی نہیں ہو سکتی، جو مذہنی منافرت کے دلدل میں پھنس چکے ہیںجو جمہوری نظام اور جمہوریت کے لئے تباہ کُن بات ثابت ہو رہی ہے۔جہاں تک بھارت کا رول ہے، اُس نے ہمیشہ سے ہی بڑے بھائی کا رول نبھایا ہے ۔آنجہانی اٹل بہاری واجپئی نے کہا تھا کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں لیکن ہمسایہ ہرگز نہیں۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، وہاں کے حکمرانوں کو اب ان باتوں کا احساس ہونے لگا ہے کہ تشدد اور دہشتگردی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، اسی لئے انہوں نے جموں کشمیرمیں ہو رہے اسمبلی انتخابات میں کسی قسم کی روکاوٹ کھڑی نہیں کی جبکہ انہوں نے گذشتہ تین دہائیوں کے دوران ہوئے تمام انتخابات میں رکاوٹیں پیدا کر کے کبھی بائیکاٹ کی کال دی اور کبھی حملے کر واکے یہاں کے لوگوں میں خوف و دہشت پیدا کیا۔بہرحال یہ ایک خوش آ ئند بات ہی نہیںکہ جموں کشمیر کے لوگ منعقد ہورہے اسمبلی انتخات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں بلکہ مرکزی حکومت بھی انتخابات کو صاف و شفاف طریقے سے انجام دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور ہر ایک جماعت اور آزاد اُمیدوار کو آزادی کے ساتھ اپنی انتخابی مُہم چلانے کی اجازت ہے ، تاکہ جموں کشمیر کے لوگ اپنے صحیح نمائندے بغیر کسی رکاوٹ کے چُن سکیں ۔اگر جموں کشمیر کی انتخابی مُہم ہند پاک بہتر تعلقات کا باعث بن جاتی ہے تو یہ آر پار کے عوام کے لئے ایک بہترین کامیابی ہو سکتی ہے ۔مرکزی حکمرانوں کو جموں کشمیر کی انتخابی مُہم کو بہانہ بنا کر پاکستان کو پیغام دینا چاہئے جیسا کہ وزیر دفاع نے دیا ہے کہ اگر وہ یعنی پاکستان دہشت گردی سے پاک برصغیر بنانے میں یقین رکھتا ہے پھر اس ملک کے ساتھ مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیںہونا چاہیے۔





