جمعہ, نومبر ۲۱, ۲۰۲۵
8.8 C
Srinagar

انتخابی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ؟

جموں کشمیر اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کی تاریخ قریب آتے ہی سیاسی پارٹیوں کے لیڈران گھر گھر جا کر ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئےزور آزمائی کررہے ہیں ۔قومی پارٹیوں کے لیڈارن اپنے اُمیدواروں اور اتحادی ساتھی اُمیدواروں کے حق میں مُہم چلانے کی خاطر جموں کشمیر وارد ہورہے ہیں جبکہ دیگر چھوٹی پارٹیوں کو اپنے ہی بل بوتے پر کام چلانا پڑ رہاہے۔گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے لیڈر راہول گاندھی نے اپنے اُمید وار غلام احمد میر کے حلقہ انتخاب ڈورو شاہ آباد اننت ناگ میں عوامی جلسے سے خطاب کیا اور اس دوران انہوں نے جموں کشمیر کے لوگوں کےساتھ کھڑے ہو کر جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دلانے کا وعدہ دہرایا ہے، لیکن انہوں نے دفعہ370کی واپسی کے لئے کسی قسم کی بات نہیں کی۔اس جلسے میں موجود جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے زور دیکر کہا کہ جموں کشمیر ہمارا ہے اور اس کا فیصلہ جموں کشمیر کے عوام کریں گے۔جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے، انہوں نے بھی جموں کشمیر میں انتخابی مُہم چلانے کے لئے لیڈاران کی ایک بڑی فہرست جاری کی ہے اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ جموں کے دورے پر آگئے اور انہوں نے اس موقعے پر نہ صرف پارٹی کا انتخابی منشور جاری کیا بلکہ انہوں نے بی جے پی اور آر ایس ایس ورکروں سے بھی ملاقاتیں کی۔اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ آر ایس ایسکا اپنا بڑا نیٹ ورک جموں میں ہے جس کو وہ متحرک کرنا چاہتے ہیں کیونکہ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں آر ایس ایس کے ورکر خاموش رہے انہوں نے ووٹنگ میں زیادہ دلچسپی نہیں لی تھی۔امت شاہ کو بخوبی معلوم ہے کہ اگر آر ایس ایس ورکر اس بار حسب سابقہ خاموش رہے تو وہ جموں صوبے میں کنول کھلانے میں ناکام رہیں گے کیونکہ بی جے پی کی سیاست کا جموں صوبے پر ہی پورا دارمدار ہے، اگر وہ جموں میں کمزور ہو جاتی ہے پھر حکومت کے تخت پر پہنچنے میں مشکلات درپیش ہوںگی، جس کا وہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ اب کی بار 50پار۔بی جے پی نے پارلیمنٹ انتخابات میں بھی چار سو پار کا جو نعرہ دیا تھا اُس کو ناکام بنانے میں آر ایس ایس کے ورکروں کا اہم رول رہا ہے۔جہاں تک وادی کا تعلق ہے ،یہاں ووٹ تقسیم ہوسکتا ہے کیونکہ یہاں نہ صرف نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد بنیادی سطح پر ناکام نظر آ رہا ہے بلکہ یہاں ایک ایک حلقے میں درجنوں اُمید وار میدان میں ہیں اور چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ پی ڈی پی کے کئی مضبوط حلقے ہیں ،جہاں سے وہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔

این سی۔ کانگریس اتحاد کو حکومت بنانے کے لئے جو نمبرات درکارہیں، وہ بھی اُن کے لئے کوہِ ہمالیہ سر کرنے کے مترادف ہے۔اگر بی جے پی جموں میں اپنے سابقہ نمبرات برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، پھر وہ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے حکومت بنانے کے لئے پر تول سکتی ہے کیونکہ این سی۔ کانگریس اتحاد تو پہلے ہو چکا ہے، لہٰذا انتخابی نتائج کے بعد ایک دوسرے سے بے وفائی کرنے سے اُن کی سیاسی صورت مسخ ہو سکتی ہے۔ جہاں تک بی جے پی کا ہندو چیف منسٹر بنانے کا خواب ہے وہ پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہاہے ۔این سی ۔کانگریس اتحاد کو حکومت سے دور رکھنے کے لئے انہیں کوئی چارہ اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ وادی کے ہی کسی مسلم وزیر اعلیٰ کو سپورٹ دیکر پانچ برس تک راج کر سکتے ہیں ۔جہاں تک کانگریس۔ این سی یا پی ڈی پی کا تعلق ہے اُن کا ملن ہو نابھی مشکل نظر آرہاہے۔اب دیکھنا یہ ہو گا کہ بی جے پی اور کانگریس قیادت کس قدر ووٹران کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ یہ آنے والے چند دنوں میں اشارہ ملے گا جب ووٹنگ کا پہلا مرحلہ شروع ہوگا۔موجودہ دھندلی صورتحال کے بیچ ووٹروں کے لئے ابھی وقت ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ لے سکتے ہیں اور جموں کشمیر کی خوشحالی، تعمیر و ترقی اور عوامی فلاح وبہبودکی خاطر کسی ایک پارٹی کو مضبوطی کے ساتھ اپنا مینڈیٹدیں جو واقعی اُن کی ترجمانی کرے گی اور اُن کے مسائل حل کر سکتی ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img