وادی کشمیر ملک میں ایک ایسی واحد جگہ تھی، جہاں لوگ نہایت ہی سادگی اور شرافت کیساتھ زندگی گزارتے تھے اور اکثر لوگ کسی بھی بُرائی کی جانب جانے سے گریز کرتے تھے۔ کیونکہ یہاں کے لوگ صوفیوں ،سنتوں ،ریشیوں اور خدا دوست بزرگوں کے سائے میں پلے بڑے تھے۔موجودہ دور میں یہاں اس قدر بڑی تیزی کے ساتھ مختلف بُرائیاں پھیل رہی ہیں کہ ذی حس انسان دھنگ ہو کر رہ جاتا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادی میں 15لاکھ لوگ نشے کی لت میں مبتلاءہیں۔ان میں زیادہ تر تعداد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں ۔ کشمیری نوجوان مختلف نشہ آور چیزوں کا استعمال کررہے ہیں۔پہلے ایام میں وادی میں سگریٹ اور تمباکو کا استعمال ہوتا تھا اور اس کا استعمال کرنے والوں کو حقیر نظروں سے دیکھا جاتا تھا ،لیکن اس کے برعکس آج شراب، چرس، افیم،برون شوگر،بوٹ پالش کے علاوہ مختلف نشیلی ادویات کا استعمال کیا جارہا ہے۔وادی میں تیزی سے پھیل رہی اس وباءکو اگر چہ سرکاری سطح پر روکنے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے۔ تاہم عوامی سطح پر اس حوالے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے جہاں اس وباءکو روکنے کے لئے پولیس نے سینکڑوں ڈرگ اسمگلروں کو گرفتار کیا اور چند ایک سرغنہافراد کی زمین و جائیدادیں بھی ضبط کی گئیں۔ تاہم پھر بھی نوجوان نسل اس وباءکا شکار ہو رہی ہے۔کہا جارہا ہے کہ اسکولوں ،کالجوں اور دانشگاہوں میں ڈرگ مافیا سرگرم رہتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح وہ اپنا نیٹ ورک ان تعلیمی اداروں میں قائم کر چکے ہیں۔دیکھا جائے تودنیا کی کل آمدنی کا تین فیصد حصہ ڈرگ کے ذریعے سے وصول ہو رہی ہے اور اس طرح کی تجارت میں بڑے بڑے سرمایہ دار،سیاستدان اور اثرو رسوخ رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔دولت جمع کرنے کی غرض سے یہ لوگ بچوں کی زندگیوں سے نہ صرف کھلواڑ کر رہے ہیں بلکہ وہ ملکوں کو کھوکلا کرنے کے لئے اس طرح کے حربے استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان ،افغانستان اور چین میں ڈرگ کے ذریعے لوگ دولت کماتے ہیں اور یہاں موجود مافیا کو باضاطہ طور سرکاری سطح پر آشیر واد حاصل رہتا ہے، تاکہ وہ ہمسایہ ممالک میں ڈرگ پھیلا کر تباہی مچا سکیں، اسطرح اُن کا کام آسان بن سکے۔وادی کشمیر کی سرحدیں چونکہ پاکستان او ر چین کے ساتھ ملتی ہیں، لہٰذا یہاں ڈرگ پہنچانا، اُن کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے مگر جہاں تک ا س ڈرگ کو عام لوگوں یا بچوں تک پھیلانے کا کام ہے،وہ ہمارے ہی لوگ انجام دے رہے ہیں۔ایسے لوگوں کو جب تک اس بات کا احساس نہ ہو جائے کہ وہ ڈرگ کے پھیلاﺅ سے اپنی ہی بنیادیں کھوکھلا کررہی ہیں،تب تک حفاظتی ادارے اس تباہی کو رکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ۔حکام کی مانے تو اب ملی ٹنسی کے لئے بھی ڈرگ کا استعمال کیا جارہا ہے۔ پیسوں اور ہتھیار کی بجائے اب ملی ٹنٹوں کو ڈرگ فراہم کیا جارہا ہے، تاکہ وہ یہاں سے رقومات حاصل کر کے ہتھیار خرید سکیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا سکیں۔
ان تمام حالات میں عوام ہی سب سے زیادہ اور اہم رول ادا کرسکتے ہیں ۔لوگوں کو مقامی سطح پر اس حوالے سے کمیٹیاں تشکیل دینی چا ہیں۔ ایماءمساجداور علماءحضرات سے ملکر اس وباﺅ کا خاتمہ کرنے کے لئے سرکاری ایجنسیوں کو مدد دینی چا ہیے تاکہ ہمار ا مستقبل تباہ ہونے سے محفوظ رہ سکے۔
