جموں کشمیر اسمبلی کے انتخابات کب ہونگے اس پر ابہام برقرار ہے کیونکہ ملک کے انتخابی کمیشن نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا ہے تا ہم انتخابی کمیشن نے رواں ماہ کی دس تاریخ کو تمام انتخابی افسران سے میٹنگ طلب کی ہے ،جس کے بعد ہی صورتحال واضح ہو گی۔ادھرجموں کشمیر کی سیاسی پارٹیوں نے تیاریاں شروع کی ہیں اور انہوں نے اپنے اپنے لیڈران اور ورکران کو انتخابی میدان میں تیار رہنے کا حکم جاری کیا ہے۔گذشتہ روز جہاں جموں کشمیر نیشنل کانفرنس نے پارٹی لیڈان کا اجلاس طلب کیا تھا اور لوگوں سے انتخابی منشور بنانے کے لئے مشاورت طلب کی ہے ،وہیں بی جے پی کے لیڈاران نے بھی جموں میں پارٹی عہدداروں کا اجلاس طلب کیا ،جس میں دیگر لیڈران کے علاوہ مرکزی وزیر داخلہ شری امت شاہ نے آن لائن موڑ پر ورکران اور لیڈران سے خطاب کرتے ہوئے انہیں انتخاب کے لئے تیار رہنے کا حکم جاری کیا ہے۔
دفعہ 370کے خاتمے کے بعد یہ پہلے اسمبلی انتخابا ت ہونگے اور ان انتخابات میں علیحدگی پسند نظریہ کے لوگ بھی شرکت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔حالیہ ہوئے پارلیمانی انتخابات میں بارہمولہ پارلیمانی حلقہ انتخاب سے عوامی اتحاد پارٹی کے انجینئرشید نے کامیابی حاصل کر کے تمام سیاستدانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کیونکہ وہ گذشتہ5برسوں سے حوالہ منی لانڈرینگ کیس کے سلسلے میں تہار جیل میں بند ہیں۔انہوں نے گذشتہ روز ملک کے آئین اور رازداری کا حلف لیا ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان حالات میں این سی اور پی ڈی پی کے دو اہم لیڈر عمر عبدللہ اور محبوبہ مفتی اسمبلی انتخابات میں شرکت کرینگے جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ جب تک جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس نہیں دیا جاتا ہے تب تک وہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔دوسری جانب پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس نے اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کی ہیں جو اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ اُن کی پارٹیاں ہونے والے اسمبلی انتخابت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لئے تیار ہیں۔سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کو بخوبی معلوم ہیں کہ اگر وہ انتخابات میں شرکت نہیں کرینگے تاہم یہاں نصف درجن سیاسیی جماعتیں انتخابات میں حصہ لینے کے لئے تیار ہیں جن میں اپنی پارٹی،پیپلز کانفرنس ،کانگرس ،بی جے پی کے علاوہ جماعت اسلامی اور حریت کانفرنس سے وابستہ سیکنڈ لائین لیڈران بھی شامل ہیں۔ایسے میں یہ دو مقامی جماعتیں مخمصے میں پڑھ چکی ہیں انہیں بخوبی معلوم ہیں کہ وہ انتخابات سے باہر رہ کر کہاں پہنچ جائے گے۔ ۔؟
بہر حال اسمبلی انتخابات کب ہونگے اس کا فیصلہ انتخابی کمیشن کو کرنا ہے لیکن سب لوگ مانتے ہیں کہ اب کی بار انتخابات کافی زیادہ دلچسپ ہونگے اور ان انتخابات کے نتایج بھی قدرے مختلف ہونگے ۔انتخابات عمل میں لانے سے لوگ اپنی حکومت قائم کرسکتے ہیں لیکن اگر اُن کے مسائل اور مشکلات حل نہیں ہو جاتے اور اچھے نمائندے چن کر ایوان میں نہ جائے ،پھر وہی پُرانی شراب نئی بوتلوں میں بھر کر لوگوں کے سامنے آجائے گی پھر انتخابات کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں ۔عوام کو بھی تیار رہنا چاہئے کہ ان انتخابات میں ایسے اُمیدواروں کو خود کھڑا کریں جو واقعی لوگوں کی خدمت کرینگے اور جن کا ماضی داغدار نہ ہو۔تب جاکر انتخابات کرانے کا کوئی فائدہ ہوگا جن پر فی الحال ابہام برقرار ہے۔