قربانی کا اصل درس۔۔۔۔۔

قربانی کا اصل درس۔۔۔۔۔

وادی کے بازاروں میں عید لاضحیٰ کے موقعے پر زبردست رش کے باوجود خریداری میں بہت زیادہ گراوٹ آچکی ہے ،بازاروں میں گھوم پھیر رہے زیادہ تر لوگ نظر آرہے ہیں، لیکن سامان خریدنے کی اُن میں طاقت نہیں ہے کیونکہ مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کوئی بھی عام انسان مشکل سے کھانے پینے کی ضروریات خرید پاتا ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عیدین کے مواقعوںپر ہر کوئی مسلمان اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے کچھ نہ کچھ خریدنے کی تمناءو آرزور رکھتا ہے اور مشکل سے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر کچھ رقم جمع کر کے اس کو عید کے مقدس موقعے پر خرچ کرنا چاہتا ہے ،لیکن جوں ہی وہ بازاروں کا رخ کرتا ہےتو زبر دست مہنگائی دیکھ کر وہ بے بس ہو کے رہ جاتا ہے اور مشکل سے کھانے پینے کا سامان خرید لیتا ہے۔بازاروں میں ویسے تو بہت لوگ نظر آتے ہیں لیکن سامان خریدنے والے بہت کم ہوتے ہیں ۔اکثر دکان دار حضرات کا کہنا ہے کہ ایسے بھی دکاندار بازاروں میں موجود ہیں، جو دن بھر ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور اس طرح شام کو خالی ہاتھ گھر واپس لوٹ جاتے ہیں۔یہ دکاندار اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عام لوگوں کے پاس آمدنی کے بہت کم وسائل ہیں اور دوسری جانب مختلف چیزورں کی قیمتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ خریددار چیز خریدنے کی خواہش تو رکھتا ہے لیکن قیمت دیکھ کر خرید نہیں پاتا ہے۔

اس بات کا اندازہ یہاں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سڑکوں اور چوراہوں پر قربانی کے ہزاروں جانور دیکھنے کو ملتے ہیں اور ان کے ارد گرد لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے لیکن بہت کم لوگ قربانی کے جانور خرید لیتے ہیں۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ وادی میں ایک لاکھ سے زیادہ ڈیلی ویجر ملازمین مختلف محکموں میں کا م کرتے ہیں اور وہ ماہانہ دس ہزار سے زیادہ تنخواہ نہیں لیتے ہیں جبکہ بازاروں میں قربانی کا ایک چھوٹے سے چھوٹا جانور 20ہزار روپے سے کم قیمت کا نہیںملتا ہے۔جہاں تک مرغوں اور بیکری کا تعلق ہے اُن کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔

جہاں تک بجلی اور پینے کے پانی کی فیس کا تعلق ہے وہ بھی بہت زیادہ بڑھ چکا ہے ۔بچوں کے کپڑے سب سے زیادہ مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں، زیادہ تر لوگ خریدنے سے قاصر ہیں۔ان تمام حالات و واقعات سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی زندگی گذارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے ۔ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو قناعت پسندی سے کام لیکر سادگی سے زندگی گذاری جائے اور ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے کہ سادگی سے ہر ایک تہوار منانا چاہیے ۔سرمایہ داروں کو بھی ان حالات کا احساس اپنے اندر پیدا کر کے اپنے ارد گرد غریبوں اور کمزورں کی مدد کرنی چاہیے، یہی قربانی کا اصل درس بھی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.