موصوف نے دعا کی: ‘ کہ 90 کی دہائی سے قبل کے جیسے حالات پیدا ہوں تاکہ ہم پہلے کی طرح یہاں امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہ سکیں’۔
انہوں کہا کہ مقامی انتظامیہ نے میلے کے پیش نظر بہترین انتظامات کئے ہیں۔
اس تہوار کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ مقامی کشمیری مسلمانوں کو اپنے پنڈت بھائیوں سے ملنے کا موقع بھی فراہم کررہا ہے جو 1990میں نامساعد حالات کی وجہ سے وادی میں اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرگئے تھے۔
میلہ کھیر بھوانی کے منتظمین کے مطابق ہزاروں کشمیری پنڈتوں نے اس پوتر مندر میں رات بھر جاری رہنے والی پوجاپاٹ اور ہون کی خصوصی محفلوں میں شرکت کی۔
ایک مقامی مسلمان جس کی مندر کے باہر دکان چل رہی ہے، نے بتایا کہ وہ گذشتہ کئی برسوں سے یہاں درشن کے لئے آنے والے پنڈت عقیدتمندوں کو خدمات فراہم کررہا ہے۔انہوں نے بتایا ’بدقسمتی سے نوے کی دہائی میں حالات نے کروٹ بدلی اور اس مندر کی درشن کے لئے آنے والے عقیدتمندوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی تاہم مجھے خوشی ہے کہ گذشتہ کچھ برسوں کے دوران یہاں آنے والے پنڈتوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ درج ہو رہا ہے‘۔ تولہ مولہ کے مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ میلہ کھیر بھوانی کے دوران نان ویجی ٹیرین کھانا ترک کرتے ہیں۔
کھیر بھوانی مندر کے آس پاس گوشت کی کوئی دکان قائم نہیں کی گئی ہے۔مورخین کے مطابق کھیر بھوانی کی مندر کو 1912 میں مہاراجہ پرتاب سنگھ نے تعمیر کیا تھا۔
کھیربھوانی کے اس مقدس مندر کے مقام پر ایک چشمہ ہے ، جو پنڈتوں کے مطابق ہر سال اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے اور کشمیر کے لئے اگلے سال کیسا ہوگا، کی رنگ کے ذریعے پیشین گوئی کرتا ہے۔اس مندر کے پادری کا کہنا ہے کہ یہ ایک پرانی روایت ہے اور رنگ بدلنے کی پیشن گوئی ہمیشہ سچ ثابت ہوئی ہے۔