فعال سوچ ہی کامیابی کا راز

فعال سوچ ہی کامیابی کا راز

کہتے ہیں انسانی تخلیقی صلاحیت ایک روشن مستقبل کے ڈیزائن کے لیے’کلید‘ ہے جس کی لوگ اور معاشرے خواہش کر سکتے ہیں اور یہ ایسے متاثر کن اور کامیاب ماڈل کی علامت ہے جو حکومتیں اور ممالک چاہتے ہیں۔مستقبل کی تخلیق ’وژن، محنت، عزم، اعتماد اور رجائیت‘ پر مبنی ہے جبکہ یہ وژن ہمیں سکھاتا ہے کہ فعال سوچ ہی کامیابی کا راز ہے۔ اگر آپکو ایک طوفانی سمندر میں سفر کرنا پڑے تو آپ کیسی کشتی کا انتخاب کرینگے؟ کیا آپ ایک چھوٹی سی کمزور کشتی یا ایک مضبوط اور محتاط طریقے سے تیارکردہ جہاز میں سفر کرنا پسند کرینگے؟ آپ بِلاشبہ جہاز کا انتخاب کرینگے اس لئے کہ یہ تباہ کن لہروں کا کامیابی کیساتھ مقابلہ کرنے میں زیادہ موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ہم اس طوفانی اور خطرناک نظام العمل میں رہتے ہوئے کئی پریشان کن مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بعض اوقات اس دنیا کے پریشان کن خیالات اور رجحانات نوجوانوں پر حاوی ہو جانے سے ان میں غیرمحفوظ ہونے کا احساس پیدا کر سکتے ہیں۔
دنیا میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مستقبل میں ایک کامیاب انسان بن جائے۔ کامیابی و کامرانی اور سرفرازی وسر بلندی اس کا مقدر اور نصیبہ بن جائے۔ عظمت و بلندی اور راحت و سکون اسے میسر ہوجائے وہ سماج اور معاشرہ میں باعزت شہری رہے ،عہدہ و منصب بھی اسے حاصل ہو اور علم و فضل اور فراست و ذہانت اور فہم و ادراک میں بھی لوگ اس کو رشک کی نظر سے دیکھیں۔ ان چیزوں کی تمنا اور خواہش تو سبھی کرتے ہیں لیکن یہ مقام و رتبہ اور عزت و وقار انہیں کو ملتا ہے جو تقدیر پر ایمان رکھ کر اس کے لئے تدبیر اور جہد و مشقت کرتا ہے اپنے اندر ہمت عزم اور خود اعتمادی پیدا کرتا ہے۔خود اعتمادی کامیابی کی علامت اور فلاح و کامرانی کا زینہ ہے ۔اپنے اندر بغیر خود اعتمادی پیدا کئے منزل کا خواب دیکھنا اور ہدف کو حاصل کرنے کی امید رکھنا یہ دیوانے کا خواب ہی سمجھا جائے گا۔ہر انسان کے اندر اللہ تعالی نے خوبیاں اور صلاحیتیں رکھی ہیں۔ ہر ایک کے اندر کوئی نہ کوئی کمال اور خوبی ضرور پنہاں ہوتی ہے۔ اب یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو تلاش کرے اس کے لئے جدوجہد کرے اور خود پر اعتماد کرے۔منزل اور ہدف کو پانے کے لئے سب بنیادی چیز یہ ہے کہ پہلے خود پر اعتماد کرنا شروع کردے۔ خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے پہلا اصول یہ ہے کہ اپنی صلاحیتوں پر بھر پور اعتماد اور بھروسہ کرے کیونکہ جب یہ چیز پیدا ہوجائے گی تو انسان کو اپنے کو نکھارنے میں وقت نہیں لگے گا اور وہ منزل ضرور پالے گا۔اس لئے انسان کو چاہئے کسی بھی کام کو کرنے یا کسی منزل تک پہنچنے سے پہلے اس کی راہ میں حائل مشکلات سے گھبرانے اور پیچھے ہٹنے کی بجائے خود پر اعتماد و بھروسہ کرکے کام کا آغاز کردے۔
یہاں ہمیں بچپن میں پڑھی ہوئی ایک کہانی یاد آرہی ہے کہ ایک قافلہ اپنی منزل پر جاتا ہوا راستہ بھول گیا اور کئی دن تک سفر کرتا رہا۔ وہ قافلہ امید چھوڑ چکا تھا کہ اب وہ دوبارہ اپنی منزل پر یا اس راستے سے کسی دوسری جگہ نہیں پہنچ سکیں گے۔ چلتے چلتے انہیں ایک راستہ نظر آیا۔ جس کی منزل ایک شہر کی جانب جاتی تھی۔ وہ اس سمت روانہ ہوگئے۔ لیکن وہاں پہنچنے پر انہیں پتہ چلا کہ ایک اونچی دیوار کے باعث وہ راستہ بند ہے۔ کچھ لوگ جب اس دیوار کو پار کرنے کی کوشش کرتے تو باقی لوگ پیچھے سے آوازیں لگانا شروع کر دیتے کہ گر جاو گے تو جان سے جاو گے اور تمہاری زندگی ختم ہوجائے گی۔ لیکن کچھ نوجوانوں نے دیوار پر چڑھنا جاری رکھا۔ جیسے جیسے وہ دیوار پر چڑھتے لوگوں کو شور و ہنگامہ بڑھتا جاتا کہ تم یہ نہیں کرسکتے واپس آجاو۔ لیکن ان میں سے ایک شخص ایسا موجود تھا جو ان آوازوں کو ان سنا کرکے چڑھنے میں کامیاب ہو گیا اور اوپر پہنچ گیا۔ اس شخص نے اوپر پہنچ کر رسی پھینکی تاکہ لوگ اوپر چڑھ سکیں۔ لوگوں نے دوسری پار پہنچ کر اس کا شکریہ ادا کیا۔ تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کا مسیحا قوت سماعت یعنی سننے کی صلاحیت سے محروم تھا۔ اس لئے چڑھنے میں کامیاب ہوگیا۔کیوں کہ اس نے اپنے پیچھے آنے والی تمام آوازوں کو سنا ہی نہیں تھا۔آج ہماری سب سے بڑی کمی اور مشکل یہ ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں کرتے، اس کا ادراک نہیں کرتے ہم لوگوں کی آوازوں اور باتوں پر کان دھرتے ہیں۔ کہ آپ یہ کام نہیں کرسکتے۔ یہ آپ کے بس کا نہیں ہے۔ یہ بہت مشکل اور دشوار ہے۔ وہاں تک تمہاری رسائی نہیں ہوپائے گی۔ وغیرہ وغیرہ۔لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر خود اعتمادی کو پیدا کریں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.