نجی اسکولوں کی من مانی ،محکمہ تعلیم کی کمیٹیاں ۔۔۔۔!

نجی اسکولوں کی من مانی ،محکمہ تعلیم کی کمیٹیاں ۔۔۔۔!

مارچ کا نیا تعلیمی سیشن شروع ہوگیا ۔کم وبیش تمام اسکولوں میں درس وتدریس کا سلسلہ امتحانی نتائج ظاہر ہونے کا بعد شروع ہوچکا ہے ۔تمام خدشات اور شکایات کے باوجود نجی تعلیمی اداروںیا اسکولوں نے وہ سب کچھ کیا ،جو وہ چاہتے ہیں ۔بورڈ کتابیں تفویض کی گئیں ،لیکن نجی اسکولوں نے ”ایڈیشنل بکس “ کے تحت اپنی من مانی برقرار رکھی ۔فی فییکزیشن کمیٹی جموں و کشمیرنے مارچ سیشن کو مدنظر رکھ کر حکمنامہ صادر کیا کہ داخلہ فیس پر مکمل پابندی عائد ہے ۔تاہم مجال ہے کہ نجی اسکول فی فییکزیشن کمیٹی جموں و کشمیرکے فیصلے کو تسلیم کرتے ،انہوں نے داخلہ فیس کا نام بدل کر (اینول چارجز) یعنی سالانہ فیس رکھا۔’اینول چارجز‘ کیا ہیں ؟کوئی بتا سکتا ہے ،جی ہاں !آپ صحیح کہہ رہے ہیں ” ایک ہزار نہیں ،دو ہزار نہیں ،تین ہزار بھی نہیں ،چارہزار بھی نہیں ،پانچ ہزار بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔چلئے رفتار تیز کردیتے ہیں ،دس ہزار بھی نہیں ۔یہ رقم اس سے کئی گنا زیادہ ہے “ ۔ریکارڈ کیساتھ آگے آنے کے لئے تیار ہیں،کیا محکمہ تعلیم اور فی فییکزیشن کمیٹی جموں و کشمیر ،اُن بڑے نامور نجی تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کرپائے گی ۔یقینا نہیں ،کیوں کہ ان کا گٹھ جوڑ دور دور تک ہے ۔
اسکول بورڈ آف ایجوکیشن جموں وکشمیر نے نجی اسکولوں سے کتابوں میں اپنا حصہ تلاش کیا ہے۔تاکہ بار بار اٹھنے والی آوازوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دبایا جاسکے ۔بورڈ کی پانچ نصابی کتابیں اور اسکول کی اپنی ایڈیشنل 10 غیرنصابی کتابیں۔۔معاملہ فکس ۔۔والدین دکان در دکان دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ۔۔کوئی کہتا ہے کہ بورڈ نے ابھی کتابوں کی ’سیل ‘ شروع نہیں کی ،کوئی کہتا ہے کہ عید کے بعد کتابیں دستیاب ہوں گی ۔بورڈ کی پانچ نصابی کتابوں کی قیمت کل ملا کر600روپے اسکول کی ایڈیشنل کتابوں کی قیمت ہزار نہیں ۔دوہزار بھی نہیں۔۔اندازہ آپ خود ہی لگائیں ۔ مخصوص دکانوں سے یونیفارم اور اسٹیشنری(وردیاں اور کاپیاں وغیرہ) 500یا800کی بات نہیں بلکہ ہزاروں روپے ہے ۔پھرٹیوشن فیس یعنی ماہانہ فیس بھی اپنی مرضی پر اور پہلے سے داخل بچوں کے لئے بھی علیحدہ ”اینول چارجز‘ ‘جو ہزاروں میں ہے ۔غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے بھی علیحدہ سے چارجز ۔۔۔۔پڑھنا اتنا مشکل کردیا گیا ہے ،کہ اس کے لئے اوور ٹائم اور پارٹ ٹائم جاب بھی کرنا ناکافی ثابت ہورہا ہے ۔
والدین بھی اب بار بار شکایات کرنے سے قاصر ہیں ،کیوں کہ وہ جانتے ہیں ،ان شکایات کا ازالہ ہونا ممکن نہیں ۔آج کے دور میں تعلیم کو مکمل طور پر تجارت میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔اب ریٹ لسٹ آوازاں کردیا جاتا ہے ،جس میں یہ بولی لگی ہوتی ہے کہ داخلہ فیس اتنی،ماہانہ فیس اتنی،اینول چارجز اتنے ،غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے یہ ۔۔وہ ۔۔نہ جانے کیا کیا ؟۔پڑھائی جو ہر شہری کا آئینی حق ہے ،لیکن نجی تعلیمی اداروں نے آئین ہندکی اس شق کو ہی ختم کردیا ہے ،کیوں کہ وہ صاف کہہ رہے ہیں ،کہ اگر آپ کے پاس پیسہ نہیںہے ،تو آپ کے بچے کے لئے اسکول کے دروازے بند ہیں اور اُن کے لئے سرکاری اسکولوں کی پھٹی ٹھاٹ ،ٹوٹے پھوٹے کمرے ،ٹوٹی میز اور کرسیاں یا پھر کھلا میدان ہے ،یا یہ بھی نہیں۔۔۔ بلکہ اس کے لئے مایوسی ۔جہالت کااندھیرا اور بغیر ڈگری ہنر مندی ،منشیات ،ڈکیتی اور غیر قانونی سرگرمیوں کا پٹارا ہے ۔محکمہ تعلیم نے بورڈ(بوس) کیساتھ منسلک نجی اسکولوں کے والدین کی شکایات کا ازالہ کرنے کے لئے ایک کمیٹی شکیل دی جبکہ اسی طرح سی بی ایس ای سے منسلک اسکولوں کے لئے علیحدہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔متعلقہ چیف ایجوکیشن افسران ان کمیٹیوں کے سربراہان مقرر کئے گئے ہیں ۔دیکھتے ہیں یہ کمیٹیاں کیسے والدین کی شکایات کا ازالہ کرتے ہیں ۔بڈگام میں کسی ایک اسکول کی رجسٹریشن ختم کرنے سے معاملہ حل نہیں ہوگا ،بلکہ اُن بڑے اور نامور اسکولوں کے خلاف شکنجہ سخت کرنے کی ضرورت ہے،جن کی من مانی پورے تعلیمی نظام پر ہے، جنکی تعلیمی کاروباری ڈور اس قدر مضبوط ہوچکی ہے کہ اسے توڑنا یا کاٹنا انتہائی مشکل بنتا جارہا ہے ۔تاہم والدین اگر آگے آئیں اور بچوں کو اسکول بھیجنا بند کردیں ،تو معاملے کا سنجیدہ نوٹس لیا جاسکتا ہے ۔سوچیں اگر والدین بچوں کے ہمراہ سڑکوں پر نکل آئے تو کیا ہوگا !

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.