خواتین کی با اختیاری ۔۔۔۔۔۔

خواتین کی با اختیاری ۔۔۔۔۔۔

عورت کے بغیر کسی بھی معاشرے کا تصور ممکن نہیں ہے، عورت نصف انسانیت اور نصف حیات ہے،مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں ،ایک کے بغیر دوسرے کی زندگی ادھوری ہے،دونوں کا انحصار ایک دوسرے پر ہے۔ قرآن نے اس بات کو یوں کہا ہے:’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔‘عورت ہی گھر کو جنت کا نمونہ بناتی ہے،جس طرح مرد گھر کی حفاظت کرتا ہے ،اسی طرح سلیقہ مند بیوی بھی گھر کی محافظ ہوتی ہے۔اسی لئے عورت کا تعلیم یافتہ اور باکردار ہونا بے حد ضروری ہے کیونکہ آنے والی نسل کی تہذ یب اور تربیت کی ذمہ داری اسی کے کاندھوں پر ہوتی ہے۔ اگر عورت تہذیب یافتہ ہوگی تو پورا معاشرہ تہذیب یافتہ ہوگا۔کچھ لوگ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ نہیں دیتے اور یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ لڑکی پڑھ لکھ کر کیا کرے گی، یہ کتنا بھی پڑھ لے مگر اسے گھر میں رہ کر ہی کام کاج کرنا ہے۔ وہ نادان لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یہی بچی آئندہ چل کر نسلوں کی مربی اور معمار بنے گی اور یہ جو کچھ ہوگی آئندہ نسلیں بھی وہی ہوں گی۔ وہ تعلیم یافتہ ہے تو آئندہ نسلیں تعلیم یافتہ اور مہذب ہوں گی۔ اگر وہ جاہل و ناخواندہ اور غیر مہذب ہے تو نئی نسل کے مہذب اور تعلیم یافتہ ہونے کا سوال ہی نہیں ہوتا۔ اسی لئے عورت کو وہ تمام سہولتیں اور حقوق ملنا چاہئے جس کے ذریعے اپنی شخصیت کو ایک مضبوط پیڑ کی طرح قائم رکھ سکے ،اور بعد میں اس کے ذریعے پرو رش پانے والی نسلیں مضبوط ٹہنیوں کی طرح اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔
اس دنیا میں بہت سے انقلابات آئے جیسے بہت سے مذاہب وجود میں آئے اوربہت سی تہذیبیں نمودار ہوئیں۔ ان سب کے پھیلانے اور مستحکم کرنے میں عورت نے مردوں کا برابر ساتھ دیا۔اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ خواتین زندگی کے ہر ایک شعبے میں ترقی کی داستانیں رقم کرکے اپنا ،والدین اور ملک کا نام روشن کررہی ہیں ۔ قبائیلی خاتون ،دروپدی مرمو صدر ہند ہیں ،انہوں نے صدر کا منصب سنبھال کر نہ صرف پسماندہ طبقوں کی نمائندگی کی بلکہ یہ ثابت کردیا کہ اپنی صلاحیتوں سے کوئی بھی خاتون ملک کے سب سے بڑے اور اعلیٰ منصب پر فائز ہوسکتی ہیں ۔اسے قبل اندرا گاندھی نے بھی ایک تاریخ رقم ۔کئی خواتین سپریم کورٹ کی جج ہیں ،کئی ایک تو ریاستی اعلیٰ عدالتوں کی چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئیں ۔کئی ریاستوں بشمول جموں وکشمیر میں بھی خواتین نے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا ۔پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم مرحومہ بے نظیر بھٹو نے تو مشرق کی خواتین کے لئے ایک نئی مثال قائم کی ۔کئی خواتین اب جنگی طیارے بھی چلا رہی ہیں ۔
الغرض کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے ،جہاں خواتین نے کامیابی کے جھنڈے نہ لہرائے ہوں ۔خواتین کھیل کود میں بھی اپنی بہترین کار کردگی دکھا کر کامیابی کی نئی نئی تاریخیں رقم کررہی ہیں ۔جہاں ہمیں علم وہنر کے میدان میں خواتین کو آگے جانے کے لئے اُن کا تعاﺅن دینا چاہیے وہیں اُنہیں کھیل کود کے میدان میں آگے بڑھنے کے لئے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔ہمیں بیٹے اور بیٹی کی تفریق کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔کیوں کہ بیٹی عصر حاضر میں بیٹے سے کم نہیں ۔اب اُسسوچ کو بدلنی کی ضرورت ہے ،جہاں خواتین کو محض گھریلو ملازمہ کی حیثیت سے دیکھا جاسکتا ہے ۔یہ طعنے دینا کہ لڑکیوں کو پڑھ لکھ کیا کرنا ہے ،سنبھلا تو رسوئی گھر (کچن ) ہی تو ہے ،یہ سلسلہ اب رکنا چاہیے۔اب تو خواتین کچن میں رہ کر بھی اپنے خوابوں کو اڑان دے رہی ہیں ۔کئی خواتین نے ایسے اسٹاراپ شروع کئے جنکی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی تھی ۔لڑکیوں کو بھی لڑکوں کی طرح تعلیم کے نور سے منور کریں اور اُنہیں اپنے خوابوں کیساتھ زندگی جینے میں حوصلہ افزائی کریں ،اُن کے خوابوں کو پورا کرنے میں اُنہیں تعاﺅن دیں اور ساتھی بنیں ۔لڑکیاں آپ کو شرمندہ نہیں بلکہ آپ کا سر فخر سے بلند کریں گی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.