مرزا جہلمی اور انکی فکر 

مرزا جہلمی اور انکی فکر 
ہلال بخاری
مرزا جہلمی جن کا اصل نام محمد علی مرزا ہے پاکستان کے جہلم علاقے کے ایک مشہور اسلامی سکالر ہیں۔ انکی ویڈیوز لاکھوں لوگ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر دیکھتے ہیں۔ ان کی بہت سی باتیں لوگوں کو پسند بھی آتی ہیں۔ وہ خود کو ایک عالم دین کی طرح پیش کرنے میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ وہ اکثر خود کو مسلکی رواداری کا ایک اہم کارکن کہتے ہیں اور مسلکی نفرت کے خلاف بولتے نظر آتے ہیں۔ لیکن انکے بیانات کو غور سے دیکھنے کے بعد علامہ اقبال کے شعر کا یہ مصرعہ اکثر یاد آتا ہے،
” دین ملا فی سبیل اللّٰہ فساد”
اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ یہ صاحب اپنے بیانات میں جارہانہ انداز بیان اختیار کرکے اپنی بات کو منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لئے وہ اکثر کچھ اقوال کا بھی استعمال کرتے ہیں جنکو اگر پرکھا جائے تو خام اور ناپختہ نظر آتے ہیں۔
مثال کے طور پر انکا ایک قول ہے،
” نا میں وہابی، نا میں بابی ، میں ہوں مسلم علم کتابی۔”
اس کے ذریعے وہ یہ تاثر دینا جاتے ہیں کہ وہ کسی مسلک سے منسلک نہیں ہیں بلکہ مستند کتابوں سے منسلک ہیں۔ دین کے معاملہ میں علم اور کتابوں سے کسی کو اعتراض نہیں ہوگا مگر اگر دین قائم کرنے کے لئے صرف کتابیں ہی کافی ہوتی تو اللہ اپنے پیغمبروں، ولیوں اور دیگر پاک بندوں سے کام نہ لیتا۔
اس کے علاوہ یہ ایک قول خام ہے۔ مرزا صاحب نے خود عبدل وہاب نجدی صاحب کی تعریف کی ہے پھر اپنے آپکو وہابی کہنے میں کیا حرج ہے ؟ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ انکے اصل بابے وہ علماء ہیں جنہوں نے مسلم شریف ، بخاری شریف یا دوسری ایسی مستند کتب تحریر کی ، تو پھر یہ بابی کیوں نہیں ؟ اور مسلم علم کتابی ہونا کون سی فخر کی بات ہے ؟ کیا اسلاف میں سے کسی نے خود کو اس لقب سے پکارا ہے ؟
 ان پر اکثر دوسرے علما صحابہ کرام کی گستاخی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ یہ اکثر اہل بیت کی محبت کو جزباتی انداز میں پیش کرکے بھول ہی جاتے ہیں کہ ایک عالم کے شیان شان نہیں کہ وہ صحابہ کرام کے خلاف جارہانہ اور گستاخ آمیز لہجہ استعمال کرے۔ صحابہ کرام کا اگر آپس میں اختلاف بھی رہا ہو پھر بھی انہوں نے اس بات کو ہمیشہ ترجیح دی کہ ایک دوسرے کے خلاف زبان درازی نہ کریں۔ زبان درازی کرنے والا چاہیے جو بھی ہو، یا جو بھی رہا ہو ایک عالم یا اللہ کا محبوب بندہ نہیں ہوسکتا۔ صحابہ کرام کے خلاف جارہانہ لہجہ استعمال کرنے سے امت میں تفرقے کے سوا اور کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔
 ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ انجینیر صاحب کو ان سب حضرات سے بغض ہے جنکو لوگ بزرگان دین کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ انکو بابے کہہ کر پکارتے ہیں اور کہتے ہیں ، ” میرا نبی (صلی اللہ وسلم) سا تو ہے ہی کوئی نہیں، تیرے بابے تو شے ہی کوئی نہیں۔” اس قول خام سے سمجھانا چاہتے ہیں کہ گویا یہ بزرگان دین اللہ کے نبی صلی اللہ وسلم کے خلاف تھے۔ ان کا ماننا ہے کہ ان بزرگوں نے اس امت کو کچھ نہیں دیا۔ اگر انہوں نے لاکھوں کو مسلمان بنایا بھی ہو تو کیا ہوا۔ مرزا جی کو کسی اور کے بارے میں کہنے سے پہلے خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئیے کہ وہ خود کیا شے ہیں۔
وہ کچھ بزرگوں کی تحریروں میں نقس نکال کر پیش کرتے ہیں۔ ان غلطیوں پر علمی بحث ہوسکتی ہے لیکن اس جارہانہ انداز میں سب بزرگانِ دین پر تہمت لگانا علم کی کمی ہے اور کچھ نہیں۔ مرزا صاحب کی تقریریں سن کر اب کچھ خود ساختہ سوشل میڈیا عالم مشتعل ہوکر بزرگان دین کے خلاف آئے روز کچھ بھی بکواس کرتے رہتے ہیں جس سے سماج میں انتشار پھیلنے کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
مرزا صاحب کا ایک اور قول خام اس بارے میں ہے، "مرنے سے پہلے ائے مسلمان کرلے اس پے غور, بابوں کا خدا اور ہے کتابوں کا خدا اور۔”
استغفراللہ، اگر ہم سا کم علم ایسی گمراہ کن بات کہے تو ہم پر یہ اور اس کے جیسے ملا صاحب حکم کفر صادر کردیں گے۔ خدا تو ایک ہی ہے تو یہ اور خدا کہاں سے آگیا؟  اس قول سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بابے یعنی جنکو اکثر لوگ بزرگان دین کہتے ہیں خدا کے خلاف ہیں۔ جن لوگوں نے اپنی زندگیاں خدا کی رضا کو تلاش کرنے میں صرف کردیں انکو ہی اب خدا کے خلاف مدعی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ انجینیر صاحب جن بزرگوں کو جارہانہ انداز میں گمراہ اور بد دین کہتے ہیں اگر ان میں سے کوئی آج اس دنیا میں ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ ان کے اس جارہانہ انداز پر بھی مسکرا دیتے اور اگر مزا جی ان سے ملنے جاتے تو وہ ان کے مزاج سے واقف ہونے کے باوجود بھی گرم جوشی سے انکا استقبال کرتے۔ در اصل شاید مرزا صاحب کو معلوم نہیں کہ وہ اس سے بالکل الگ اور مبرا تھے جو جھوٹ کچھ لوگ ان سے منسوب کرتے ہیں۔ اگر کسی نے کسی بزرگ کو خدا بنانے کی کوشش کی تو اس نے واقعی ظلم کیا۔ اگر کسی بزرگ نے کچھ ایسا کہا وہ جو اللہ تعالیٰ اور اسکے نبی کریم صلی اللہ وسلم کا حکم نہ ہو تو وہ کوئی بزرگ ہی نہیں۔ اس کی جزا اور سزا کا فیصلہ خود اللہ کرے گا۔ آپ کیوں زبان درازی کرکے امت میں انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں؟ اس سے حاصل کیا ہوگا ؟
  انجینیئر صاحب کے انداز بیان سے لگتا ہے اور اس کے بہت سے چیلوں کا دعوا ہے کہ مرزا صاحب نے  توہم پرستی اور گمراہ کن عقائد پر بات کرکے دین کی سب سے بڑی خدمت کی ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان کے یوٹیوب ویڑیوز کے آنے سے پہلے تقریباً سب لوگ اس بر صغیر ہندوپاک میں عام طورپر گمراہ تھے۔  ایسے لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ انجینیر صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کی اگر انہوں نے لوگوں کو توہم پرستی اور گمراہ عقیدوں کے بارے میں آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کلام شیخ نورالدین ولی کا مطالعہ کیجئے تو وہ اکثر لوگوں کو حق کی تلقین کرتے اور توہم پرستی سے خود کو بچانے کی تعلیم دیتے نظر آتے ہیں مگر ہمارے یوٹیوب دیکھنے والے لوگوں کو لگتا ہے کہ یوٹیوب سے بہتر علم اور کہیں نہیں کیونکہ ان میں کتب بینی کی صلاحیت ہی نہیں۔ اگر ہوتی تو یہ لوگ سمجھ جاتے کہ ہمارے اسلاف اور بزرگان دین سے ہمیں کیا کیا نعمتیں حاصل ہوئی ہیں اور انکا کیا کنٹریبوش رہا ہے۔
مرزا جہلمی جن لوگوں کو اپنی فکر کے مطابق واقعی عالم تصور کرتے ہیں اگر غور کیا جاۓ تو ان میں سے اکثر نے اس امت کو فتنہ و فساد کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ ان کی وابستگی کو اگر غور سے پرکھا جائے تو وہ علمی وابستگی ہونے سے ذیادہ جزباتی وابستگی لگتی ہے۔
یہ بات ہم مان لیتے ہیں کہ مرزا جہلمی اپنے یوٹیوب ویڑیوز سے کچھ نہیں کماتے اور ان کا ارادہ اس سے مال جمع کرنے کا نہیں ہے مگر اس کے انداز بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جناب شہرت کے لئے بہت کوشاں ہے۔
مرزا صاحب اپنی ویورشپ پر بہت اتراتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے ویوز کی تعداد سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ ہمکو کتنا مانتے ہیں۔ مگر ویورشپ کی کثرت کا ایک اور نفسیاتی راز بھی ہے۔ اکثر لوگوں کو آج کل وہ باتیں میٹھی لگتی ہیں جن میں فتنہ و فساد بھرا ہو اور نفرت کی بھر پور آمیزش ہو۔ اکثر لوگ جو عمر بڑھنے کے باوجود بھی لڑکپن سا دماغ رکھتے ہیں امن پھیلانے والوں کی تقاریر سے ذیادہ ان شعلہ انگیز بیان دینے والوں کو پسند کرتے ہیں جو ان کی طبیعت کے عین مطابق انکی دماغی خلش کو بار بار کریدتے رہتے ہیں۔
 ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ چاہے اللہ کے پیغمبر ہوں، صحابہ کرام ہوں یا بزرگان دین اللہ تعالیٰ نے ان کو ہمیشہ لوگوں کے لئے  درخشاں ستاروں کے مانند رکھا ہے جو ظلمتوں میں گمراہوں کی رہبری کرتے ہیں۔ آج تک ہر کسی حقیقی عالم اور فاضل نے اسی حقیقت کو تسلیم کرکے اپنی عجز و انکساری کا ثبوت دیا ہے۔
دوسری طرف یہ بات بھی سچ ہے جیسا کہ مولانا رومی نے فرمایا کہ انسان اپنی فطرت کے سامنے مجبور بھی ہوتا ہے,
مہ فشاند نور و سگ عو عو کند،
ہر کسے بر خلقت او می تند۔
یعنی چاند اپنی اوقات کے مطابق نور بکھیرتا ہے اور کتے بھونکتے ہیں،
ہر ایک مخلوق اپنی فطرت کے مطابق عمل کرتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.