گھریلو تشدد کی تعریف بھی بدل سکتی ہے

گھریلو تشدد کی تعریف بھی بدل سکتی ہے
سیدہ رخسار کاظمی
آج تک ہمارے معاشرے میں خواتین کے خلاف ہمیں بہت گھریلوں تشددیا حادثات دیکھنے کو ملتے رہے ہیں،جس سے منسلک آئینِ ہند میں سخت سے سخت قوانین عورتوں کے حوالے میں بنائے گئے ہیں۔ اسکے باوجود آج بھی بہت سی عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔حالانکہ خواتین کو اس سے بچانے کے لیے بہت سی این جی او و جود میں آ چکی ہیں۔اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ ہماری بہت سی عورتوں نے اسکے خلاف ایک لمبی لڑائی لڑی ہے۔جس کا فائدہ تمام خواتین کو ہوا ہے اور انہیں اپنے حقوق حاصل ہوئے ہیں۔ آزادی کے دور سے لے کر حال تک حکومتِ ہند نے بہت سے حقوق عورتوں کو دیے ہیں۔ ہمارا قانون پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ عورتوں کو انصاف دلانے میں مدد فراہم کر پائے۔ مگر اس بیچ ایک چیز جو معاشرہ اب نظر انداز کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ صرف عورتیں ہی نہیں بلکہ اب مرد بھی اسکا شکار ہورہے ہیں۔ حالانکہ بہت کم ہمیں مردوں کے متعلق جرم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن جس طرح سے خواتین کے ساتھ زیاتی اور جرم ہوتے ہیں اسکی وجہ سے اب اگر کسی مرد پر ظلم ہوتا بھی ہے تو معاشرہ میں اسے نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور لگتا ہے کے مرد کی ہی غلطی ہے۔جبکہ حالات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اب کچھ عورتیں ایسی بھی ہیں جو قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اپنے شوہر بلکہ سسرال والوں کے ساتھ ذیادتیاں اور ناانصافی کر رہی ہیں۔صرف شہروں میں ہی نہیں بلکہ ملک کے دیہی علاقوں میں بھی ایسا دیکھنے میں آ رہا ہے جہاں ایک لڑکی قانون کا غلط استعمال کر اپنے خاوند اور اس کے گھر والوں پر تشدد کر رہی ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ جموں کے سرحدی ضلع پونچھ کے گاؤں قصبہ میں دیکھنے کو ملا ہے۔ جہاں ندیم (بدلہ ہوا نام) کی بیوی نے گھریلو تشددسے تحفظ قانون کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکا استحصال کراسے ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ندیم کی شادی اسکے محلے میں ہی رہنے والی ایک لڑکی کے گھر والوں کی رضامندی سے ہوئی تھی۔ندیم بتاتے ہیں کہ شادی کے بعدانہوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ اسکی خوشی کے لئے ہر چیز مہیا کاروائی جائے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُنکے گھر میں انکی دادی جان بھی رہتی ہیں جو اپنی عمر کے آخری دنوں میں کافی بیمار ہیں۔ان کے علاوہ ان کی والدہ اور والد ساتھ میں رہتے ہیں جبکہ بہنوں کی شادی ہوگئی ہے۔ندیم بتاتے ہیں کہ”میری والدہ گھر کا کافی کام خود کرتی ہیں اور میری بیوی کواپنی بیٹی کی طرح رکھنے کی پوری کوشش کی۔ایک دن میری والدہ اپنا علاج کروانے اسپتال گئی تھیں۔جاتے ہوئے انہوں نے میری بیوی سے بوڑھی دادی کا خیال رکھنے کی ہدایت دی تھی کیونکہ وہ بیماری کی وجہ سے بستر سے اٹھ بھی نہیں سکتی ہیں۔لیکن میری بیوی نے ان کا خیال رکھنے کی جگہ اس بوڑھی عورت کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔اس نے نہ صرف اُنھیں بری طریقے سے مارابلکہ غلط ویڈیو بنائی کہ امّاں (دادی)مجھے مار رہی ہیں جسکی وجہ سے بیمار امّاں بہت ڈر گئی تھی۔ اسکے باوجود بھی ہم نے اسے معاف کیا۔ لیکن میری بیوی ہمیں اور پریشان کرنے لگی۔یہاں تک کے مجھ پر ہاتھ بھی اٹھایا۔ میری والدہ اور والد کے بیچ لڑائی بھی کروائی۔میری بیوی کی ان تمام حرکات میں اسکی والدہ بڑھاوا دیتی ہیں اور اگر کچھ بولو تو دھمکی دیتی ہیں کہ میں تجھے جیل پہونچا دونگی۔“ وہ بتاتے ہیں کہ میری بیوی حاملہ ہے اورایسے حالات میں میں اسے چھوڑنا نہیں چاہتا مگر اس نے ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے۔ جسکی وجہ سے کچھ دن کے لیے میں نے اسے اسکے گھر بھیج دیا۔لیکن اب وہ اپنی والدہ کے ساتھ مل کر مجھے اور میرے ماں باپ کو پولیس کی دھمکیاں دیتی ہے۔ندیم کہتے ہیں کہ میری والدہ اوروالد میری وجہ سے صبر کر رہے ہیں تا کہ مجھے وہ پریشان نہ کرے۔
ندیم کی کہانی ناقابلِ برداشت ہے۔لیکن یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے۔ایسی کئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں جہاں ایک لڑکی قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے شوہر اور اس کے گھر والوں کے ساتھ ظلم کرتی رہتی ہے لیکن ایسے معاملے ایک محلے یا گھر میں ہی دفن ہو کر رہ جاتے ہیں کیوں کہ ہمارا معاشرہ ہر صورت میں مرد کو ہی غلط سمجھتا ہے۔بیشک ایسے معاملے بہت کم ہوتے ہیں لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ ایسے معاملہ میں ہمارا سماج اور قانون دونوں خاموش ہے۔ہندوستان میں مردوں کے خلاف صنفی بنیاد پر تشدد مستقبل کی تحقیقات اور ضروری مداخلت کا مطالبہ کرتا ہے۔ این آئی ایچ کی ویب سائٹ پر مختلف سروے اور رپورٹس کی بنیاد پر شائع ایک تحریر کے مطابق ملک کے دیہی علاقوں میں 51.6فیصد مرد کو جذباتی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہیں 6فیصدی مردکوجسمانی جبکہ 0.4 فیصد مرد کو بھی جنسی تشددکا سامنا کرنا پڑا ہے۔ایک ہزار مردوں پر کئے گئے سروے میں 51فیصدی نے اعتراف کیا کہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایک بار گھریلو تشدد کا سامنا ضرور کیا ہے۔جبکہ 2.5فیصد نے مانا کہ وہ سال میں ایک بار کسی نہ کسی شکل میں گھریلو تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ جسمانی تشدد کی سب سے عام شکل تھپڑ مارنا تھا جسے 98فیصد نے مانا ہے کہ اس کے ساتھ گزر چکی ہے جبکہ 3.3فیصد گھریلو یا کسی خاتون کے ذریعہ کسی عام ہتھیار سے تشدد کا شکار ہو چکے ہیں۔رپورٹس کے مطابق85فیصدی مردبیوی یا کسی بھی خاتون کے ذریعہ جذباتی تشدد یعنی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ 29.7فیصد کو دوسروں کے سامنے بے عزتی کی گئی اور 3.5فیصد کو اپنی بیوی یا فیمیل پاٹنر کے ذریعہ دھمکیاں دی گئیں یا تکلیف دی گئی۔سروے میں اپنی شریک حیات کے ذریعہ جسمانی طور پر جنسی تعلق پر مجبور کرنے اورمرد کواس کی مرضی کے خلاف کوئی بھی جنسی فعل کرنے پرمجبور کرنے کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔کرونا کے دوران صرف عورت ہی گھریلو تشدد کا شکار نہیں ہوئی ہے بلکہ مرد بھی اپنی بیوی کے ذریعہ گھریلو تشدد کا شکار بنے ہیں۔قریب 60 فیصد تشدد کے معاملے میں شوہر کی بے روزگاری سب سے بڑی وجہ تھی۔ اس کے بعد ایک دوسرے کی بات نہ سننے کا 23 فیصدی جبکہ 4.3 فیصدی معاملے بے قابو غصہ، انا کا مسئلہ، وغیرہ ذمہ داررہا ہے۔
دراصل، ملک میں موجودہ قوانین کو دیکھتے ہوئے، ایسے کوئی قانون نہیں ہیں جو مردوں کو مباشرت کے ساتھی کے تشدد سے محفوظ رکھتے ہوں۔ 1860 کے تعزیرات ہند کی دفعہ 498A یہ وضاحت کرتا ہے کہ مرد صرف اس کی بیوی کے خلاف تشدد کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ پورے ایکٹ میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جو خواتین کو اس کے لیے ذمہ دار بناتی ہو۔ اسی طرح 2005 کے گھریلو تشدد سے خواتین کے تحفظ کے ایکٹ کا سیکشن 3 کہتا ہے کہ یہ صرف خواتین کو اس طرح کے تشدد سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ایکٹ کا کوئی قاعدہ مردوں کو اس طرح کے تشدد سے تحفظ نہیں دیتا ہے۔ اس طرح کے قانون سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مرد ہی ہمیشہ مجرم ہوتے ہیں اور د عورتیں ہمیشہ بے قصور ہوتی ہیں۔گھریلو تشدد سے متعلق ایک بزرگ خاتون کنیز فاطمہ کہتی ہیں کہ ”اس میں کوئی شبہ نہیں کے عورتیں بہت ظلم سہتی آرہی ہیں  اور آج بھی زیادہ تعداد میں عورتیں مردوں کے دباؤ میں رہتی ہیں۔لیکن آج بہت سی عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے سے اپنے حقوق کے بارے میں علم ہوا ہے۔اب کئی عورتیں بہادر ہوگئی ہیں جو بہت اچھی بات ہے۔ عورت اور مرد کا برابری کا رشتہ ہوتا ہے۔اُنھیں گھر میں مرد کے مقابلے برابر عزت اور حق ملنا چائیے۔پہلے دور میں ہم عورتیں اپنے ساتھ ہونے والی زیاتی سح لیتی تھی۔مگر آج کی عورت سہتی نہیں ہے بلکہ اسکے خلاف ہونے والے جرم کے لیے وہ قانون کی مدد لیتی ہے جو ایک بہادری کی بات ہے۔لیکن معاشرے میں کچھ عورتیں جو قانون سے ملنے والے حقوق اور طاقت کا غلط فائدہ اٹھا رہی ہیں جو ایک جرم کی طرف دعوت دینے کا کام کرتا ہے۔“انہوں نے کہا کہ قانون بھی انکا ساتھ دیتا ہے جسکی وجہ سے عورت اپنے شوہر اور اسکے گھر والوں کو دباؤ میں ڈالتی ہیں اور ان پر ظلم کرتی ہیں جو بہت غلط ہے۔یہ ایک جرم ہے جس پر ہمیں اور قانون بنانے والوں کو غور و فکر کرنے کی ضروت ہے۔ اگر ایسے حادثے بڑھتے رہے تو ایک وقت ایسا ائے گا جو عورتیں سچ میں گھریلوتشدد کا شکار ہو رہی ہیں اُن پر بھی کوئی یقین نہیں کریگا۔ایسے حالات بتاتے ہیں کہ قانون کو اس مسلہ پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بے گناہ مرد جرم کا شکار نہ ہو۔
(چرخہ فیچرس)

Leave a Reply

Your email address will not be published.