وادی میں خشک سالی سے پیدا شدہ صورتحال نہ صرف اہل وادی کے لئے مشکلات کا سبب بن رہی ہے بلکہ سیاحتی صنعت پربھی منفی اثر پڑ رہا ہے۔گزشتہ سال کے دوران اگر چہ ریکارڈ توڑ سیاح وادی وارد ہوئے، لیکن رواں برس کے ابتدائی ایام میں وادی میں گزشتہ جنوری کی نسبت بہت کم سیاح وارد ِ کشمیر ہوئے، اس کی سب سے بڑی وجہ سے وادی میں برف نہ گرنا ہے ۔وادی کے صحت افزا ءمقامات پہلگام،گلمرگ اور سونہ مرگ میں ہوٹلوں کی قبل از وقت بکنگ منسوخ ہو چکی ہے۔جہاں تک سرمائی کھیلوں کا تعلق ہے، ان میں بھی رکاوٹ پیدا ہو چکی ہے۔
ماہرین وادی میں خشک سالی کو لیکر کافی پریشان ہیں کیونکہ ان ماہرین کا مانا ہے کہ اگر خشک سالی کا یہ سلسلہ یو ں ہی چلتا رہا ،تو وادی میں نہ صرف پینے کے پانی کی زبردست قلت پیداہوگئی بلکہ زمینداروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔یہاں یہ باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ وادی میں جن بالی ووڑ فلم سازوں اور اداکاروں نے برف کے دوران یہاں فلموں کی شوٹنگ کا من بنا لیا تھا ،انہوں نے بھی فی الحال یہاں آنے کا پروگرام ترک کیا ہے۔خشک سالی سے پیدا ہو رہے مشکلات کے مدنظر وادی کے علماءحضرات نے مساجد اور خانقاہوں میںنماز استسقا ادا کرنے کی اپیل کی تھی اور اس حوالے سے اکثر جگہوں پر اس کا اہتمام بھی کیا گیا ، لیکن ابھی تک دعا قبول نہیں ہو سکی، برعکس اسکے وادی میںآئے روز درجہ حرارت میں اضافہ ہو تا جارہا ہے ۔
وادی میں اگر چالیس روزہ چلہ کلان کے دوران برف باری یا بارش نہیں ہو تی ہے، تو اس سے بہت مشکلات پیدا ہو سکتے ہیں ۔عالمی سطح پر ہو رہی موسمی تبدیلی کو لیکر دنیا کے سائنسدان اگر چہ پریشان ہو رہے ہیں، تاہم ان کا مانا ہے کہ اس تبدیلی کے لئے انسان خود ذمہ دار ہے۔لوگ جان بوجھ کر قدرتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں اور قدرتی ذخیروں کی نہ صرف بے حرمتی کرتے ہیں بلکہ ان قدرتی خزانوں پر شکر بجا لانے کی بجائے ان کو اپنے ہاتھوں تباہ کررہےہیں۔وادی میں عالی شان عمارتیں مسلسل تعمیر ہو رہی ہیں، اونچے ہوٹل ،شاپنگ کمپلیکس بنائے جاتے ہیں ۔جنگلات کا بے دریغ صفایا کیا جارہاہے ،آبی ذخیروں کو تباہ کیا جارہا ہے ۔ٹرانسپورٹ حد سے زیادہ بڑھ رہا ہے اور پہاڑوں کو مسمار کر کے سڑکیں اور ٹنلیں بنائی جارہی ہیں ،اس طرح ماحولیاتی آلودگی مسلسل ہو رہی ہے ۔اس تباہی کو روکنے میں خود انسان ہی ایک اہم رول ادا کر سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ ان میں شعور پیدا ہو سکے ۔وہ قدرت کی بناوٹ کو لالچ و حرس میں آکر تہس نہس نہ کریں ۔اس کے لئے سرکاری اداورں کی ذمہ داری بھی بن جاتی ہے کہ وہ دور اندیشی سے کام لیکر کسی بھی خلاف ورزی کا سنجیدہ نوٹس لیں اور خود بھی سرکار اس ضمن میں ایک جامعہ پالیسی مرتب کرے تاکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس طرح کی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔





