بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
6.9 C
Srinagar

تعصب کی عینک اُتار پھینکیں ۔۔۔۔۔۔۔

وادی کشمیر میں آج کل ہر مجلس اور ہر محفل میں موجودہ زمانے کے علماءحضرات زیر بحث آرہے ہیں اور عام انسان ان علماءکے بارے میں نہ جانے کیاکیا کہتے ہیں۔ایک ذی حس اور ذی فہم انسان یہ سب کچھ سن کر دھنگ ہو کے رہ جاتا ہے اور اپنی زبان دانتوں تلے چبانے پر مجبور ہورہا ہے اور اندر ہی اندردل و دماغ میں اس بات کو لیکر صرف تشویش اور افسوس کا ظہار کررہا ہے،کہ آخر ہم کہاں پہنچ گئے ہیں؟ ہمارے اسلاف کی وہ تعلیمات کہاں گُم ہو گئےں، جن کی بدولت ہم صرف ایک دوسرے سے پیار ،محبت بانٹتے تھے اور ایک دوسرے سے بغیر کسی مذہب ،رنگ نسل اورذات پات کے ہمدردی سے پیش آتے تھے۔آج کل ہر کوئی چار کتابیں پڑھ کر عالم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور شوشل میڈیا کےذریعے سے اپنے فالوورز بناتے ہیں، عوام میں تفریق اور بگاڑ پیدا کرتے ہیں، جس طرح آج کل اس شوشل میڈیا پر آکر خود کو صحافی کہنے والے عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔اس بات سے کسی بھی اہل علم کو انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ وادی کشمیر میںاسلام جنگ و جدل اور تلوار کی بنیاد پر نہیں پھیلا ہے بلکہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے بر گذیدہ شخصیات نے پیار ،محبت،ہمدردی ،شرافت اور اخلاق کا وہ ہتھیار استعمال کیا ہے ،جو دنیا کے تمام ہتھیاروں سے افضل اور طاقور مانا جاتا ہے۔یہ شخصیات لاعلم نہیں تھے بلکہ انہوں نے خود کو مختلف تعلیمات کے سمندروں میں غوطہ زن ہو کرہر طرح کی تعلیم و تربیت حاصل کی تھی۔ انہیں تمام ظاہر و باظنی علوم پرگہری نظر تھی، پھر بھی وہ عالم ہونے کے دم نہیں بھرتے تھے بلکہ ہمیشہ نیک نیتی سے کام لیکر عام لوگوں کو یہ سوچ کر عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، جس کی بنا کر انہوں نے بڑے فخر سے ملائکہ کو فرمایا تھا ،یہ میرا خلیفہ زمین پر ہوگا اور ہرگز فتنہ و فساد کا ساتھ نہیں دے گا اور نہ ہی بگاڑ پیدا کرے گا۔

آج جب ہم اپنے ارد گرد نظر ڈوڑاتے ہیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ مذہب کے نام پر بیشتر علماءفتنے کھڑے کر رہے ہیں ۔جماعت اور مسلک کی بنیاد پر اس قدر تفرق پھیلایا جاتا ہے کہ ذی حس انسان پریشان ہو جاتا ہے، آخر یہ کیا کچھ ہو رہا ہے اور کس کے کہنے پر ہورہا ہے۔ہمارے اسلاف نہ زیادہ پڑھے لکھے تھے اور نہ ہی انہیں موجودہ دور کی ٹیکنالوجی دستیاب تھی لیکن اُن کی سوچ اُن کی بالغ نظری ،اُن کی شرافت و سادگی اور اُن کے اخلاق اس قدربلند تھے کہ روزانہ لاکھوں لوگ اُن کے گُرویدہ ہوتے تھے اور اُن کے مرید بن جاتے تھے جو اُنکے ایک اشارے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے پر راضی ہو جاتے تھے۔وہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ مناظرہ کرتے تھے لیکن اُن کا دائرہ ہرگز دینی علوم کے باہر نہیں ہوتا تھا۔

اگر ہم حضرت شاہ ہمدان میر سید علی ہمدانی ؒکے بارے میں سنجیدگی سے غور کریں اور تعصب کی عینک کو اُتار کر دیکھیں تو یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ آپؒنہ صرف ایک روحانی بزرگ ولی اللہ مفکر اور محقق تھے بلکہ آپؒ ایک اعلیٰ پایہ کے ماہر اقتصادیات بھی تھے ،جنہوں نے اہل وادی کو مختلف ہنر سکھا کر انہیں روز مرہ زندگی کے اخراجات اور ضروریات پورا کرنے کے لئے سبیل کی۔جہاں تک موجودہ دور کے علماءکا تعلق ہے وہ صرف اپنی اپنی جماعت بڑھانے کے لئے مساجد ،خانقاہوں اور زیارتگاہوں کا استعمال کرتے ہیں لیکن باوجود اس کے وہ روز بروز کمزور ہوتے جارہے ہیںکیونکہ اُن میں خلوص کا فقدان ہے، وہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی خاطر واعظ و تبلیغ نہیں کرتے ہیں بلکہ اُن میں کہیں نہ کہیں نفس پرستی کا عنصر موجود ہے، جس کو ختم کرنا بے حد لازمی ہے، جب تک ہم سب انسانیت کی بقاءاور تعمیر و ترقی کی خاطر ،پیار و ہمدردی ،اخوت و برادری کے لئے انسانیت کا پیغام عام نہیں کریں گے اور نفس پرستی پر قابو نہیں پائیں گے تب تک کامیابی کا خواب دیکھنا بے معنی ہے اور معاشرے میں سدھار کی بجائے بگاڑ ہی پیدا ہو جائے گا جیسا کہ آج کل ہر جانب دیکھنے کو مل رہا ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img