بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
8.1 C
Srinagar

پورا معاشرہ لالچی۔۔۔۔۔۔

یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان سب کچھ بھول جاتا ہے ۔کل کی تاریخ میں کیا کچھ ہوا تھا، آج کی تازہ خبر جب سامنے آتی ہے تو پُرانا خود بہ خود انسان کے ذہن سے مٹ جاتا ہے، نظروں سے اُوجھل ہو جاتا ہے۔جموں کشمیر کی اگر بات کی جائے تو یہاں روز کوئی نہ کوئی ایسی خبر سامنے آتی ہے جس پر عوامی حلقوں میں ہا ہا کار مچ جاتی ہے لیکن چند دنوں کے بعد کسی کو کچھ یاد نہیں رہ جاتا ہے۔ایک دن جب وادی سے یہ خبر منظر عام پر آگئی کہ سرینگر کے حبہ کدل علاقے میں ایک عورت باضابطہ طور ایک فحشیت کا اڈہ چلاتی ہے تو لوگ سڑکوں پر آگئے اور انہوں نے نہ صرف وہ مکان چند منٹوں میں مسمار کردیا جس میں یہ اڈہ چلایا جاتا تھا بلکہ لوگ ان وزیروں ،مشیروں اور سرکاری افسران کے نام پر بھی تھُو تھوکرنے لگے جن کا نام اس بدنام زمانہ سیکس ا سیکنڈل میں آیا تھا۔

گزشتہ دنوں وادی میں پھر ایک بار لوگوں میں غم و غصہ اور ناراضگی دیکھنے کو ملی جب شوشل میڈیا کے ذریعے سے یہ خبر منظر عام پر آگئی کہ ایک نجی مالیاتی کمپنی نے وادی کے لوگوں سے 60کروڑ روپے ہڑپ کئے اور دفتر بند کرکے خود رفوچکر ہوگئے۔اس بڑے اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد نہ صرف عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی بلکہ ہر گھر میں لوگ ایک دوسرے کو نصیحت کرتے تھے کہ اس طرح کی لالچ میں ہرگز نہیں پڑنا چاہیے بلکہ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چا ہیے، جو اس طرح کی لالچ دیکر لوگوں کو ٹھگ لیتے ہیں۔مگر اس خبر کے چند دن بعد ہی ایک اور خبر شوشل میڈیا پر آگئی جس میں اس بات کا انکشاف ہو ا تھا کہ ایک سیاسی ورکر اور ایک نوجوان نے لوگوں سے موٹی رقومات نوکری دلانے اور سفارش کرنے کے نام پر اینٹھ لیتا تھا۔اگر چہ پولیس اور دیگر تحقیقاتی ادارے اپنی طاقت اور بساط کے مطابق ان کیسوں کی چھان بین بھی کرتے ہیں اور ملوث افراد کے خلاف کارروائیاں بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی لوگ پھر وہی غلطیاں کرتے نظر آتے ہیں۔پہلے ایام میں اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آتا تھا، تو دہائیوں تک عام لوگوں کو یاد رہتا تھا اور سنبھل کر چلنے کی ٹھان لیتے تھے،پھر اس طرح کے واقعات رونما نہیں ہوتے تھے ۔آج کے دور میں روز کوئی نہ کوئی اسکینڈل منظر عام پر آتا ہے ،چوری،ڈاکہ زنی ،قتل و غارتگری،پیسوں کی ہیرا پھیری اورفحشیت کے اڈوں کا پردہ چاک اب روز مرہ کی خبریں بن رہی ہیں۔آخر کیوں ۔۔؟

ان واقعات کے لئے کوئی خاص ٹولہ ذمہ دار ہے یا پھر عام لوگوں کی غلطی بھی ہے۔جب باریک بینی سے دیکھا جاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پورا معاشرہ لالچی بن چکا ہے لوگ ایک دوسرے سے ہر معاملے میں سبقت لینے کے تاک میں ہوتے ہیں ۔بڑے بنگلے تعمیر کرنے کی خواہش،بڑی گاڑی خریدنے کی تمنائ،شادی بیاہ کی تقریبات میں دیکھا دیکھی کے عالم میں فضول خرچات وغیرہ ہر انسان کا معمول بن چکا ہے۔سماج میں یہ ناسور تمام بُرائیوں کی جڑ ہے۔دولت مند ہونا کوئی گناہ نہیں ،نہ ہی اعتدال میں خرچ کرنا کوئی جُرم ہے، نہ ہی امیر بننے کا خواب دیکھنا غلط ہے ۔ان تمام چیزوں کو عملانے کے لئے محنت، مشقت اور بلند حوصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر انسان چاہے تو کوئی بھی منزل حاصل کرنا اُس کے لئے آسان بن سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ اُس کا ذہن وقلب شیطانی سوچ سے صاف و پاک ہو۔منفی انداز میں سوچنے کی بجائے مثبت انداز میں سوچنے کی کوشش کی جائے اور لالچ و حرس سے کام نہ لیں اور کسی کے بہکاوئے میں نہ آئیں، تب جاکر معاشرہ صاف و پاک بن سکتا ہے اور تحقیقاتی اداروں کا کام بھی آسان بن جائے گا، انہیں بھی روز روز وجود میں آرہے نئے نئے معاملات کی تحقیقات نہ کرنا پڑے ۔

 

Popular Categories

spot_imgspot_img