جموں و کشمیر میں پرائیویٹ اسکولوں میں فیس مقرر کرنے والی کمیٹی نے داخلہ فیس وصول کرنے پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو بھی پرائیویٹ اسکول داخلہ فیس وصول کرنے کا مرتکب پایا جائے گا، اُس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور اُس اسکول کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے گی۔سرکار کی جانب سے اُٹھائے گئے اس قدم کی عوامی حلقوں میں زبردت سراہانہ کی جارہی ہے۔
اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ جموں کشمیر خاصکر وادی موجود پرائیوٹ اسکولوں کے مالکان نے غریب اور کمزور طبقوں سے وابستہ لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے اور وہ نہ صرف ایڈمیشن کے نام پر لوگوں سے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں بلکہ مختلف بہانوں سے والدین کو دو دو ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔کبھی بلڈنگ فیس کے نام پر تو کبھی سالانہ فیس لوگوں سے وصول کیا جارہا ہے اور کبھی کھیل کود کے نام پر بچوں سے موٹی رقومات وصولے جاتے ہیں ،جہاں تک بس فیس کا تعلق ہے اس میں بھی کوئی قرار نہیں ہے، ہر چھ ما ہ کے بعد اس میں اضافہ کیا جارہا ہے۔
والدین کا یہ بھی الزام ہے کہ اُن کے بچوں کے لئے قسم قسم کی وردیاں بازاروں سے اونچے داموں خرید نے پڑتے ہیں اور مخصوص دکانوں سے کتابیں اور کاپیاں خریدنے پڑتی ہیں، جن کے دام بھی من چا ہے طریقے پر وصولے جاتے ہیں اور ان دکانداروں سے اسکول انتظامیہ اچھا خاصا کمیشن بھی لیتی ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار پرائیوٹ اسکولوں کا رہا ، جنہوں نے اربوں روپے مالیت کی جائیدادیں کھڑی کی ہیں۔غرض اکثر اسکول سرکاری قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، اس طرح من مانی کرتے رہتے ہیں۔
جسٹس سنیل حالی کی صدارت میں بنائی گئی کمیٹی نے بھی ان باتوں کا اعتراف کیا ہے کہ چند نجی اسکول اس طرح کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔جہاں تک موجودہ مرکزی سرکار کا تعلق ہے ،وہ تعلیم کو عام کرنے اور ملک میں ہر بچے کو تعلیم کے نور سے منور کرنے کے لئے مختلف اسکیمیں عملانے کے لئے کوشاں ہے، لیکن اگر پرائیوٹ اسکولوں کے مالکان اور ذمہ داروں کا رویہ یہی رہا کہ وہ تعلیم کو تجارت بناتے رہیں گے تو پھر بہت سارے بچے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہیں گے۔بہر حال فیس مقرر کرنے والی کمیٹی نے اپنا فیصلہ عوامی حلقوں کو سنایا ہے اس کے باوجود بھی اگر کوئی اسکول انتظامیہ فیصلے کے برعکس ایڈمیشن فیس ،ٹیوشن فیس یا اور کوئی فیس زیادہ وصول کریں گے ، تو انہیں فوراً متعلقہ حکام تک بات پہنچانی چاہیے۔تاکہ اُنکے خلاف کارروائی کی جاسکے۔
یہاں ان باتوں پر بھی سرکار کو غور کرنا چا ہیے کہ بچوں کی تعلیم بہتر بنانے اور یکساں طریقے پر امیر اور غریب بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لئے ایک ہی نصاب مقرر کرنا چاہیے،کتا بوں اور وردیوں کے لئے بھی سرکاری سطح پر دکانیں کھولنی چاہئیں تاکہ سب کو ایک ہی قیمت پر کتابیں اوروردیاں مل سکیں،اس طرح بے روزگاروں کے لئے روزگار کے وسائل بھی پیدا ہوں گے۔ان باتوں پر بھی غور کرنا چاہئے کہ جو اسکول قانون کی خلاف ورزی کرنے کا مرتکب پایا جائے گا، اُس کو سرکاری تحویل میں لینا چاہئے اس طرح تعلیم کے نام پر ہو رہی تجارت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔





