ہمیں دشمن کی کمزور سوچ کو ایک طرف چھوڑ کر اپنے آپ کو ہر سطح پر مضبوط اور مستحکم کرنا چا ہیے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا ہاتھ بٹاناچا ہیے۔عام لوگوں کے ساتھ بہتر رابطے قائم کر کے ہم نے کشمیری عوام کے دل جیت لئے ہیں، ان خیالات کا اظہار جموں کشمیر یوٹی کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے انڈیا ٹوڈے آج تک کے پروگرام ’ایجنڈا آج تک 2023‘ میں مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا۔جموں کشمیر میں جہاں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران عام لوگوں نے صرف مسائل و مشکلات کا سامنا کیا ہے اور آگ و آہن کا کھیل دیکھا ،وہیں روز تشدد کے واقعات دیکھنے کو مل رہے تھے۔ ہر جانب کرفیو،ہڑتال ،توڑ پھوڑ اور پتھراﺅ کے واقعات سامنے آرہے تھے۔
جموں کشمیر کو پہلے ریاستی درجہ ملے گا یا عام انتخابات ہونگے، میرے لئے یہ بے معنیٰ سوال ہے بلکہ میں جموں کشمیر کے لوگوں کا ہمسفر تعمیر وترقی میں بننا پسند کرتا ہوں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تین دہائی قبل وادی اور جموں کے مختلف اضلاع میں شروع کی گئی ملی ٹنسی سے جموں و کشمیر میں تعمیرو ترقی کے لحاظ سے باقی ریاستوں کی نسبت بہت پیچھے رہ گیا۔ملی ٹنسی کی آڑمیں جموں کشمیر کے بہت سارے لوگ اگر چہ کروڑ پتی بن گئے ، نااہل اور کمزور سوچ رکھنے والے سیاستدان بن گئے لیکن جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے، اُن کے سامنے مشکلات اور مصائب کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔یہاں کی تجارت ختم ہوگئی ،یہاں کی تہذیب و تمدن ،ثقافت و زبان ختم ہو گئی ،یہاں کے آپسی بھائی چارے پر کالے دھبے پڑ گئے۔سرکاری دفاتر میں ایسے ناقابل اور ناکارہ افراد داخل ہوگئے جنہوں نے نہ صرف انتظامی نظام درہم برہم کر کے رکھ دیا بلکہ عام لوگوں کا جینا دوبھرکر کے رکھ دیا۔لوگوں کے معمولی کام کو بھی دفتری طوالت کینذر کیا جاتا تھا،بے روزگاری عروج پر پہنچ گئی۔دفعہ 370کے خاتمے کے بعد جموں کشمیر کے انتظامی نظام میں آسمان کو چھونے والی تبدیلی آگئی۔عام لوگوں کے مسائل مقررہ مدت کے دوران نہ نپٹانے پر افسر مجاز کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
رشوت ستانی پر قدغن لگ گئی ۔سمارٹ سٹی کا منصوبہ ہاتھ میں لیا گیا،شہر و دیہات میں اسٹریٹ لائٹیں نصب کی گئیں،سڑکو ں لینوں اور ڈرینوں کی مرمت کی گئی۔مختلف مرکزی سکیمیں متعارف کی گئیں،آن لائن نظام رائج کیا گیا،سرکاری زمین ہڑپ کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی،سرکاری ملازمین کو ڈیوٹی کا پابند بنایا گیا،غرض انتظامی سطح پر بہت بڑی تبدیلی عمل میں آگئی ۔ جموں کشمیر میں پہلی مرتبہ پبلک درباروں کا اہتمام ہوا ۔آج پہلی بار پولیس کے سربراہ اور چیف سیکرٹری نے عام لوگوں سے ملنے کا منصوبہ ہاتھ میں لیا جس سے پولیس اہلکاروں اور سیول افسران میں خوف طاری ہوا ہے کہ کہیں غلطی ہونے پر ان کی شکایت اعلیٰ عہدداروں تک نہ پہنچ جائے ۔لہٰذا وہ عوام کے ساتھ بہتر سلوک روا رکھنے میں ہی اپنی خیر و عافیت مانتے ہیں۔سرحد کے آر پار اگر چہ چند دوستوں نے دفعہ 370 کے خاتمے کے خلاف پروپگنڈا کرنا چاہا لیکن وہ ناکام رہے کیونکہ جموں کشمیر کے عام لوگوں نے مرکزی سرکار کے اس فیصلے کو یہ مان کر دل سے تسلیم کیا کہ انہوں نے جو انتظامی بد نظامی ،رشوت ستانی اور کنبہ پروری سے مصائب جھیلے تھے، اُن سے نجات مل گئی ۔غالبا¾ ان ہی خیالات کی عکاسی جموں کشمیر کے ایل جی نے آج تک ایجنڈا کے مباحثے میں کیا جو کہ حقیقت پر مبنی ہے۔مگر بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ جموں کشمیر میں بہت کچھ کرنا باقی ہے جس کے لئے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس جنت میں مزید رونق آجائے۔





