محمد منور پروانہ : کئی شعری مجموعوں کے مصنف

محمد منور پروانہ : کئی شعری مجموعوں کے مصنف

شوکت ساحل

سرینگر:شمالی ضلع بانڈی پورہ کے گنڈ قیصر گاﺅں سے تعلق رکھنے والے محمد منور وانی المعروف محمد منور پروانہ صوفی شاعری ہیں ،جنہوں نے آٹھویں جماعت میں ہی صوفی رہبر کی تلاش شروع کی ۔محمد منور نے شعبان صاحب بانڈی پورہ کے صوفی مدرسہ میں داخلہ لیا یعنی اُن کی شاگردی کا شرف حاصل کیا ۔

ایشین میل کے ہفتہ وار پروگرام ’بزم عرفان ‘ میں وادی کے معروف براڈ کاسٹر عبد الا حد فر ہاف سے خصوصی گفتگو کے دوران محمد منور پروانہ نے اپنے صوفیانہ شاعری کے سفر کے بارے میں خلاصہ کرتے ہوئے کہا کہ 60کی دہائی میں انہوں نے صوفی پھرن پہننے کا فیصلہ لیا ۔میٹرک پاس کرکے محکمہ باغبانی میں ملازمت حاصل کی اور 34برس7ماہ تک اس محکمہ میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے ،تاہم من کے سنتور میں بجا صوفیت کاساز اُنکی شاعری میں پیوست ہوا ۔

محمد منور وانی کہتے ہیں کہ پروانہ کا خطاب انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے حاصل کیا ۔محمد منور کا پہلا شعری مجموعہ ’مَنک سدر ‘ منظر عام پر آیا ،لیکن یہ سلسلہ یہاں پر نہیں رکا بلکہ اسکے بعد ان کے مزید دو شعری مجموعے ’دُردانہ سردکی¿ اور کنزُالمرجان ‘ منظر عام پر آگئے ۔ان کا کہناتھا کہ ابھی بھی اُن کا کافی کلام منظر عام پر آنے والا ہے ۔

محمد منور پروانہ کی صوفی شاعری کا اندازہ اس شعر (سَر کَرطالبوکیاہ گو تُراب ۔۔۔کتھ شایہ ِ پھولان رنگہ رنگہ گلاب ) سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے اچھے اور بلند پایہ صوفی شاعر ہیں ۔محمد منور پروانہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اُن کے 13شاگرد ہیں،جو اُنکے صوفی مدرسہ میں صوفیت کی تعلیم حاصل کررہے ہیں ،کیوں کہ اُنہیں دستخطاً خطہ ارشاد حاصل ہوا ہے ۔

ان کا کہناتھا ’تصوف کا دوسرا نام نیک عادت ہے ،جس نے یہ عادت ڈالی وہ عرفان کے بلند درجہ پر پہنچ جائے گا ،یعنی وہ معرفت حقیقی سے جا ملے ،یہی تصوف کا پیغام اور حاصل ہے ‘۔انہوں نے کہا کہ تصوف ایک بابرکت اور باعظمت راہ ہے ،جس پر چل کر رب ِ کائینات کی رحمتیں حاصل کی جاسکتی ہیں کیو نکہ یہ اللہ تعالیٰ اور صوفی کے درمیان ایک پُر سکون اور پُر امن رابطہ ہے ۔

علم تصوف کے چار طریقے ہیں،چار گواہ ہیں،چار مقام ہیں اور چار راستے ہیں۔تصوف کا پہلا خاص الخاص طریق شریعت ہے،دوسرا طریقت ہے۔ جو بال سے بھی زیادہ باریک ہے،تیسرا حقیقت ہے جس سے ذاتِ حق کے مشکل و دقیق ترین نکات کی گرہ کشائی ہوتی ہے اور چوتھا معرفت ہے جس میں معرفت الہی کا بے پایاں و عمیق دریائے توحید موجزن ہے۔

کہتے ہیں کہ تصوف مرحلہ در مرحلہ سفر کرنے کا نام ہے۔ اس سفر کو سلوک اور مسافر کو سالک کہتے ہیں۔ گویا صوفی سفر کرتا رہتا ہے، جامد نہیں رہتا۔وادی کشمیر میں یہ سفر کامیابی سے جاری ہے اور ایشین میل کی بھی کوشش ہے کہ ہم ہر اُس صوفی شاعر تک پہنچ جائیں ،جو گمنا می کی زندگی گزارتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.