بانہال سے بڈگام تک شیشے کی چھت والی خصوصی ریل گاڑی وستا ڈوم کا گزشتہ روز جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ہری جھنڈی دکھا کر کیا۔اس موقعے پر ایل جی موصوف نے کہا کہ اس ٹر ین میں نہ صرف سیاح کشمیر کے دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہونگے بلکہ اس ٹرین میں سفر کرنے والے مسافروں کے لئے ہر قسم کی سہولیات میسرہوں گے۔انہوں کہا کہ عنقریب یہ ٹرین جموں کشمیر کو کنیا کماری کے ساتھ جوڑ دے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وادی میں امسال ریکاڑ توڑ سیاح سیر و تفریح کےلئے آئے ہیں جو کہ اہلیان جموں کشمیر کے لئے ایک خوش آئندہ بات ہے، کیوںکہ اس سے یہاں کے بیروز گار نوجوانوں کو روز گار کے موقعے فراہم ہوں گے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وادی کشمیر کی جانب گزشتہ سات دہائیوں کے دوران مرکزی سرکار نے کبھی اس طرح توجہ نہیں دی تھی، جس طرح آج دی جارہی ہے۔پہلے ایام میں بھی بے تحاشہ رقومات واگذار ہوتے تھے لیکن یہ رقومات کہاں خرچ کئے جاتے تھے ،کوئی پتہ نہیں چل جاتاتھا۔اس کے برعکس جب سے مرکزی سرکار نے خود اس یونین ٹریٹری کی لگام اپنے ہاتھوں میں لی کس حد تک تعمیر و ترقی نظر آرہی ہے۔
انتظامی بدنظمی کا حال یہ تھا کہ مسلم وقف بورڑ کے زیر انتظام دکانات،دفاتر اور دیگر جائیدادوں پر قابض لوگ ماہانہ کرایہ بھی ادا نہیں کرتے تھے جس کی تازہ مثال کل ہمارے سامنے آئی کہ بڈشاہ چوک میں کئی دکانوں کو جب سیل کیا گیا تو چند گھنٹوں کے اندر اندر دکانداروں نے بقایا کرایہ ادا کیا۔یہی حال تمام محکموں کا تھا کیونکہ اکثر محکموں میں وہ لوگ افسری چلاتے تھے جو ایک مخصوص طبقے سے وابستہ تھے اور وہ ان ہی لوگوں کے کام کرتے تھے، اُن کے اشاروں پر چلتے تھے۔جہاں تک سرینگر ۔جموں شاہراہ کا تعلق تھا، یہ سڑک مرکزی سرکار کے زیر نگرانی میں آتی تھی مگر گزشتہ 7دہائیوں کے دوران کبھی یہ سڑک آمددرفت کے لئے ٹھیک نہیں ہوتی تھی۔ چہ جائے اس قومی سڑک پر روزانہ لاکھوں روپئے خرچ کئے جاتے تھے۔جہاں تک وادی کے لوگوں کا تعلق ہے وہ سڑک کی خستہ حالی اور ٹرین سروس نہ ہونے کی وجہ سے غربت و افلاس میں گر جاتے تھے اور سڑک بند ہوتے ہی اکثر چیزوں کے دام میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوتا تھا ایسا لگتا تھا کہ جموں کشمیر دو الگ الگ ریاستیں ہیں ۔
جہاں لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے کے لئے اور آنے جانے میں پاپڑ بھیلنے پڑتے تھے۔ اب جبکہ بانہال سے سرینگر اور بارہمولہ تک ریل چلی ہے، اس سے کسی حد تک سفر میں آسانی ہو چکی ہے ،مگر قومی سڑک کی خرابی سے پھر بھی مشکلات درپیش ہیں ۔مرکزی سرکار اور ایل جی انتظامیہ کو اس سڑک کو جلد سے جلد رام بن سے بانہال تک اُسی طرح مکمل کرنا چاہئے جس طرح جموں سے ادھمپور تک چار لینوں والی سڑک ہے جس پر چلنے سے مسافروں کو آسانی بھی ہوتی ہے اور وقت بھی بچ جاتا ہے۔جہاں تک ریل لنک کا تعلق ہے، اس کو بھی بانہال سے آگے جلد سے جلد مکمل کرنا چاہئے تاکہ واقعی یہ وادی بھی ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ بہ آسانی مل سکیں جیسا کہ ایل جی موصوف نے اپنے بیان میںکہا ہے کہ یہ ریل کشمیر سے کنیا کماری تک عوام کو جوڑ دے گی۔