پوری دنیا میں10اکتوبر کو وولڈ مینٹل ہیلتھ ڈے (ذہنی تندرستی کا عالمی دن ) کے طور پرمنایا جاتا ہے۔اس دن کی مناسبت سے پوری دنیا میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور لوگوں کو ذہنی تندرستی کے حوالے سے تعلیمات دی جاتی ہیں ۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ انسان کی جسمانی تندرستی کا دارمداراُس کی سوچ پر ہوتی ہے جو انسان فکر و اندیشوں میں مُبتلا رہتا ہے، وہ انسان زیادہ دیر تک جسمانی طور پر مضبوط نہیں رہتا ہے بلکہ وہ مختلف بیماریوں میں مُبتلا ہو جاتا ہے اور جو انسان اپنے دماغ پر زیادہ زور نہیں ڈالتا ہے اور دنیاپرستی کی جانب اپنی توجہ زیادہ مرکوز نہیں کرتا ہے ،وہ لمبی عمر جی لیتا ہے۔
اگرہم وادی کشمیر کی جانب ایک سرسری نظر ڈالیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہاں کی 70فیصد آبادی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہے۔ماہرین صحت اس کی وجہ گزشتہ تین دہایﺅں کے حالات کو بتاتے ہیں ۔ان ماہرین کا کہنا ہے کہ جن حالات سے وادی کے عوام کو گذشتہ تین دہایﺅں سے گذرنا پڑا ہے، ان ہی حالات کے سبب عام لوگ زیادہ بیماریوں میں مبتلا ہوئے ہیں۔ہر روز ہڑتال ،کرفیو،احتجاج اور تشدد کے واقعات ہوتے تھے اور لوگ زیادہ تر گھروں میں قید ہو کے رہ جاتے تھے۔غربت و افلاس میں مبتلا اکثر لوگ دن رات اسی سوچ میں رہتے تھے کہ کل کیا ہوگا۔۔۔؟یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان تین دہایﺅں میں اس قدر بڑی تیزی سے تبدیلیاں ہوئی ہےں کہ ہر کوئی مختلف مسائل میں پھنس گیا۔لوگ ایک دوسرے سے ہر معاملے میں سبقت لینے کی فکر میں پریشان اور پراگندہ رہتے ہیں، غلط طریقوں سے دولت جمع کرنے میںلگے ،عالی شان بنگلے بنانے اور عالی شان گاڑیاں خرید نے کی دوڑ میں شامل ہوئے۔
جن لوگوں کو موقعہ ملا انہوں نے اقتدار کی لال پری پر برا جماں ہو کرسرکاری خزانے اور قومی سرمایہ کو دو دو ہاتھوں سے لوٹ لیا اور جن لوگوں کو یہ موقعہ نہ ملا ،انہوںنے اس سے بڑ ھ کر غلط کام کرنے شروع کئے۔رشوت ستانی عام ہو گئی،دھوکہ دہی،فریب کاری عام لوگوں کا شیوہ بن گیا۔سماج کا ایک بہت بڑا طبقہ نشیلی ادویات اور منشیات کا کاروبار کرنے لگا۔قتل ،ڈاکہ زنی اور فحشیت کے راستے پر بھی لوگ چلنے لگے ،یہاں تک وہ ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو گئے اور اُن میں طرح طرح کی بیماریاں پھیلنی لگیں۔غرض ان کا چین و سکون چھن گیا اور زیادہ تر لوگ ذہنی تناﺅ کا شکار ہو گئے۔اصل میں انسانی جسم میں دو بڑے اہم حصے دل اور دماغ مانے جاتے ہیں ،اگر ان میں کسی قم کی کمزوری آجاتی ہے ،تو انسان کا سکھ و چین ختم ہو جاتا ہے اوروہ مختلف امراض میں گرفتار ہو جاتا ہے، پھر ادویات پر زندہ رہنا پڑتاہے۔ماہرین اس طرح کی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لئے طرح طرح کے نسخے آزمارہے ہیں، لیکن اس اہم بنیادی بیماری کا اعلاج ذکر حق اور مڈیٹیشن ہے ،جو لوگ اس طرح کاعمل کرتے ہیں ان میں ذہنی تناﺅ کم پایا جاتا ہے اور اُن کی زندگی سکھ چین سے گذر جاتی ہے۔
اسطرح کی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہی ایک نسخہ آج تک کارگر ثابت ہو چکا ہے جو پیغمبروں، صوفیوں ،ولیوں،سنتوںاور سادھوںنے آزمایا ہے ۔لہٰذا دن منانے سے ان بیماریوں کا خاتمہ نہیں ہو سکتا ہے بلکہ اس کے لئے لازمی ہے کہ ہم اُن تعلیمات کو حاصل کریں جن پر دنیا کی بڑی شخصیات نے خود عمل پیرا ہو کرعالم انسایت کے سامنے رکھی ہیں ۔اگر موجودہ دور کا انسان ان تعلیمات پر عمل کرتا ہے تو انسان واقعی ذہنی اور جسمانی طور تندرست رہ سکتا ہے جو لاکھوں نعمتوں سے افضل اور قیمتی ہے۔