بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
12.9 C
Srinagar

آئیے خوشیاں بانٹیں !

اللہ تعالی نے قرآن کریم کے آخری پارہ میں جہاں امام مہدی کی آمد کی علامات کا ذکر فرمایا ہے، وہیں آخری زمانے کی بعض کمزوریوں کا ذکر بار بار کیا ہے، جو بالخصوص امام مہدی کے دور میں پائی جانی تھیں۔ ان میں سے ایک یتیموں، مسکینوں اور غرباء کے حقوق کا ذکر ہے۔ جو بار بار ہوا ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو عید کا موقع اس کا ایک عملی اظہار ہے۔عید ایک چھوٹا ساتین حرفی لفظ ہے ،جو عربی لفظ عود سے نکلا ہے، اس کے معنی لوٹ آنے اور بار بار آنے کے ہیں۔ عید کیونکہ ہر سال لوٹ آتی ہے اس لئے اس کا نام عید پڑگیا ،عید کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ۔تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں جو عید کے تصور سے آشنا نہ ہو،قدیم تاریخی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمدن دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی عید کا بھی آغاز ہو گیا تھا۔ ایک روایت ہے کہ جس روز حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی، اس روز دنیا میں پہلی بار عید منائی گئی تھی۔ دوسری بار عید اس وقت منائی گئی تھی جس روز ہابیل اور قابیل کی جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔حضرت ابراہیم ؑ کی قوم نے اس روز عید منائی تھی، جس روز آپ یعنی حضرت ابراہیم ؑپر نمرود کی آگ گلزار ہوئی تھی۔ حضرت یونس ؑکی امت اس روز عید مناتی ہے، جس روز حضرت یونسؑ کو مچھلی کی قید سے رہائی ملی تھی۔ حضرت موسیٰؑ کی قوم اس روز عید مناتی ہے، جس روز حضرت موسیٰؑ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ حضرت عیسیٰؑ کی امت آج تک اس یوم سعیدکوعید مناتی ہے۔ جس روز حضرت عیسیٰؑکی ولادت ہوئی۔دنیا کی تقریباً سبھی قوموں میں تہوار منانے کا رواج ہے اور ہرمذہب کے لوگ اپنی روایت کے مطابق تہوار مناتے ہیں۔عید کے معنیٰ خوشی بھی ہے ۔

کہتے ہیں علم بانٹنے سے اور زیادہ حاصل ہوتا ہے ٹھیک اُسی طرح خوشی بانٹنے سے خوشیاں مزید نصیب ہوتی ہیں ۔عیدالفطر کے پر مسرت موقع پر جو آپس میں کسی وجہ سے ناراض ہیں ان کو ایک دوسرے سے صلح کر لینی چاہیے اور بروز عید ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا چاہیے۔ عید کے دن دل میں کوئی رنجش نہ رکھیں کیونکہ عید آتی ہے اور خوشیاں دے کر چلی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیںکہ اور جب انسان اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے سرفراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خوب خوشیاں منائے عید کے دن مسلمانوں کی مسر ت اور خوشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خدا کے احکامات کی ایک ماہ تک سختی سے تعمیل کی اور اس تعمیل کے بعد خوش و مسرور رہتے ہیں۔حضرت ابوہریرہؓایک مشہور صحابی تھے ۔آپ سے روایت کرتے ہیں، کہ عیدالفطر کے دن حضور میدان میں نماز ادا فرماتے نماز کی ادائیگی کے بعد لوگوں سے ملاقات کرتے گلے ملتے پھر واپس گھر آجاتے۔

آپ بھی خوب خوشیاں منائیں نئے کپڑے نئے جوتے خریدیں اور بڑوں سے عیدی بھی لیں اور چھوٹوں کو عیدی بھی دیں لیکن،لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بھی نہ بھولیں، حسب توفیق انہیں بھی اپنی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کریں۔عید اصل میں ہے ہی دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا نام ہے یا دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام ہے۔بقول شاعر (یہ عید تیرے واسطے خوشیوں کا نگر ہو۔۔۔کیا خوب ہو ہر روز تیری عید اگر ہو)۔اسلام کا کوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں اور پھر اسی مبارک مہینے میں زکٰو ةنکالی جاتی ہے یعنی امیر لوگ غریبوں کو دینے کے لئے ضرورت مندوں کی مددکرنے کے لیے اپنی جمع پونجی (آمدنی)میں سے اسلامی قوانین کے مطابق کچھ رقم نکالتے ہیں اور غریبوں میں اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ بہت سے غریب گھرانوں اور حاجت مندوں میں کھانے پینے کی چیزیں اور پہننے کے لئے کپڑے خرید لئے جاتے ہیں اور یوں سب عید کی خوشیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اگر ہمارے پڑوس میں خاندان میں کوئی عید کی خوشیوں میںشامل نہیں ہو سکتا ،غربت کی وجہ سے تو اس کی مدد کرنے سے ہی عید کی دلی خوشیاں ملیں گئیں ، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل کر دی ہے ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تا کہ وہ غریب مسلمان بھی مسرتوں اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے بھی ایک غریب مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے، وہ لازوال ہوتی ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img