سمارٹ میٹر اوربوسیدہ ترسیلی نظام

سمارٹ میٹر اوربوسیدہ ترسیلی نظام

تحریر:شوکت ساحل

قدرت نے جموں وکشمیر کو آبی وسائل سے مالا مال کردیا ہے ۔جہاں یہ آبی وسائل یہاں کے سیاحتی شعبہ کو فروغ دینے میں نمایاں اور کلیدی کردار ادا کررہے ہیں ،وہیں جموں وکشمیر کی اقتصادیات میں بھی اپنا رول ادا کررہے ہیں ۔

ماحولیات کے توازن کو برقرار رکھنے میں آبی ذخائر کا تحفظ انتہائی لازمی ہے ،وہیں ترقیاتی منظر نامے کے لئے ان کا صحیح استعمال بھی ہونا چاہیے ۔

جموں وکشمیر میں آبی وسائل سے پیدا ہونے والی بجلی سے پورا بھارت روشن ہورہا ہے اور پیداوار کے لحاظ سے جموں وکشمیر میں اگر دیکھا جائے تو بجلی کی کوئی کمی نہیں ۔

تاہم ناقص ترسیلی نظام کے سبب ’ترسیل اور تقسیم ‘ میں شعبہ برقیات کو شدید نقصان سے دوچار ہورہا ہے ۔

بجلی کی کوئی کمی نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق موجود ہے ۔ چونکہ ہمارا ترسیلی نظام انتہائی کمزور اور بوسیدہ ہوچکا ہے جسکے باعث مزید لوڈ کی سکت نہیں ہے جو12سے 16 گھنٹے لوڈشیڈنگ کا سبب بن رہا ہے۔

پیداوار اورطلب میںفرق تو ضروری ہے اور اسے قطعی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن پانی، ہوا اورسورج سے بھی بجلی پیدا کی جارہی ہے۔

گھروں ، دکانوں،اسٹریٹ لائٹس ،سرکاری دفاتر اور مذہبی مقامات میں سولر سسٹم(شمسی نظام ) کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث پن بجلی پروجیکٹوں پر طلب کا بوجھ کم ہورہا ہے ۔

ہماراترسیلی نظام کا بنیادی ڈھانچہ اس قدر کمزور اور بوسیدہ ہے کہ پیداوار کا بوجھ ہی اٹھانے کے لئے تیار ہی نہیں ہے ۔

جدید بجلی کھمبوں کی جگہ سفید ے کے درختوں کا استعمال اور زمین کو چھوتی ،درختوں سے لٹکتی ہوئی یا مکانوں کے چھتوں سے گزرتی ہوئی ترسیلی لائنیں سمارٹ میٹر نصب کرنے کے منصوبے پر بدنما داغ کی مانند ہے ۔

بجلی ٹرانسفارمروں کی ناقص تنصیب بھی ایک مسئلہ ہے ۔بجلی ٹرانسفار مر ایسے نصب کئے جاتے ہیں ،جیسے خیرات میں لگائے گئے ہو ۔ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹرانسمیشن، ڈسٹری بیوشن اور تجارتی نقصانات ہی جموں وکشمیر میں بجلی کٹوتی کا سب سے بڑی اور اہم وجہ ہے ۔

ایک میڈیا رپورٹ میںمصنف، سول انفراسٹرکچر ماہر، سابق سینئر ڈائریکٹرریمبول،افتخار درابو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں ٹرانسمیشن، ڈسٹری بیوشن اور تجارتی نقصانات کا65سے70 فیصد ریکارڈ ہے جو کہ دنیا کے کسی بھی حصے سے کئی گنا زیادہ ہے۔

مثال کے طور پر یورپ میں یہ نقصانات 5 فیصد سے کم ہیں اور عالمی اوسط10 فیصد کے قریب ہے۔ ہندوستان میں قومی اوسط 20فیصد ہے اور ہم اس تعداد سے تین گنا زیادہ ہیں۔

سادہ الفاظ میںاگر ہم100 روپے میں توانائی خریدتے ہیں، تو اس کی فروخت پر ہماری آمدنی صرف30 سے35 روپے کے درمیان ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق یوں تو کوئی ایک حد تک خراب ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کو نقصانات کا ذمہ دار ٹھہرا سکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا ایک اچھا حصہ بجلی چوری کی وجہ سے ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسے علاقے ہیں جہاں سردیوں میں توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے تقسیم کا نیٹ ورک ناکافی ہے جس کے نتیجے میں بجلی میں کمی واقع ہوتی ہے۔

اب جب کہ حکومت نے سپلائی کی مناسب میٹرنگ شروع کی ہے (وہ کچھ علاقوں میں سمارٹ میٹر لگا رہے ہیں)، امید ہے کہ اس سے ہماری بجلی کی پریشانیوں میں کمی آئے گی۔

امید تو ایسی ہے کہ یہاں بجلی کا نظام بہتر سے بہتر ہوگا ۔تاہم ضروری ہے کہ سمارٹ میٹرکی طرح ترسیلی نظام کو بھی سمارٹ بنایا جائے ۔جب تک مرض کی تشخیص نہیں ہوتی ،تب تک موثر علاج بھی ناممکن ہے ۔

جدید تقاضوں کے مطابق بجلی نظام سے ہی بجلی بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.