جاوید ٹاک: جسمانی طور ناخیز بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والا کشمیری جوان

جاوید ٹاک: جسمانی طور ناخیز بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والا کشمیری جوان

سری نگر/ اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ جسمانی طور معذور فرد کا دکھ درد ایک جسمانی طور ناخیز فرد ہی سب سے بہتر طور پر سمجھ بھی سکتا ہے اور اس کا بہتر سے بہتر مداوا بھی کر سکتا ہے۔
جنوبی کشمیر کے قصبہ بجبہاڑہ سے تعلق رکھنے والے جسمانی طور ناخیز جاوید احمد ٹاک، نے اپنے جیسے لاچار افراد کے درد کو دور کرنے اور ان کو در پیش مشکلات کے ازالے کے لئے تعلیم کو ہتھیار کے بطور استعمال کیا جس کے نتیجے میں آج نہ صرف ان کے جسمانی طور معذور طلبا کے لئے مخصوص اسکول سے فیضیاب ہونے والے بچے بورڈ امتحانات میں امتیازی نمبرات حاصل کر رہے ہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔
جاوید ٹاک پیدائشی جسمانی طور ناخیز اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان نہیں ہیں بلکہ وہ پچیس برس قبل گولی لگنے سے چلنے پھرنے کی قوت سے محروم ہوگئے ہیں۔
انہوں نے جسمانی طور معذور ہونے کے بعد اپنے اہلخانہ پر بوجھ بننے اور اپنے مقدر پر شکوہ سنج ہونے کے بجائے تعلیم کا چراغ روشن کرکے معذور بچوں کی تاریک دنیا میں روشنی کا بندوبست کیا۔
جموں وکشمیر سٹیٹ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے دو روز قبل اعلان شدہ دسویں جماعت کے امتحانی نتائج میں اس اسکول سے بینادی تعلیم حاصل کرنے والے 7 بچوں نے امتیازی نمبرات حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔
جاوید ٹاک نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا کہ جسمانی طور ناخیز ہونے کے بعد میں دو برسوں تک گھر میں ہی بیٹھا رہا اور اس کے بعد میں نے غریب اور یتیم بچوں کو مفت پڑھانا شروع کیا۔
انہوں نے کہا: ’اس دوران میری گریجویشن کی ڈگری بھی مکمل ہوگئی اور میں بچوں کو ہر روز صبح سے شام تک پڑھاتا بھی رہا اور بعض رضاکاروں کی مدد سے ان کے لئے کتابیں، وردی وغیرہ کا انتظام بھی کر رہا تھا۔
موصوف نے کہا کہ اس دوران میں نے جسمانی طور معذور بچوں جن میں کچھ قوت بینائی سے محروم بچیاں بھی تھیں، جنہوں نے تعلیم چھوڑ دی تھی، کو پڑھانا شروع کیا۔
انہوں نے کہا: ’سال2006 میں ہم نے ایک سینٹر قائم کیا اور قصبہ بجبہاڑہ میں جسمانی طور ناخیز افراد کا سروے کیا‘۔
جاوید ٹاک نے کہا کہ جسمانی طور بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کرنے کا جوش وجذبہ مجھے چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔
انہو نے کہا: ’اپنے اس جذبے اور شوق کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میں نے سال 2008 میں جمسانی طور ناخیز بچوں کی تعلیم و تربیت کے مخصوص زیبہ آپا انسٹی ٹیوف آف انکلوسیو ایجوکیشن کے نام سے ایک اسکول قائم کیا‘۔
ان کا کہنا تھا: ’یہ اسکول سات بچوں سے شروع ہوا اور آج اس میں جسمانی طور معذور ایک سو بیس بچے معیاری تعلیم کے نور سے منور ہو رہے ہیں ان میں سے بعض قوت گویائی سے تو بعض قوت سماعت سے محروم ہیں جبکہ کچھ بچے ذہنی طور ناخیز بھی ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اسکول سے بینادی تعلیم سے بہروہ ور ہونے والی قوت بینائی سے محروم ایک بچی دہلی یونیورسٹی کی طرف سے انگریزی ادب میں آنرز کی ڈگری حاصل کر رہی ہے۔
موصوف نے کہا کہ اسکول میں ان بچوں کو صرف تعلیم ہی نہیں جاتی ہے بلکہ ان کی باز آبادکاری کے لئے ماہرین نفسیات کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان بچوں کو اسکول میں تمام تر سہولیات دستیاب رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جسمانی طور ناخیز بچوں کے لئے اس مخصوص اسکول میں فیس وصول کرنے کا طریقہ اور نظام بھی باقی نجی اسکولوں سے مختلف ہے۔
اس اسکول میں طلاب علم کو جماعت کے مطابق نہیں بلکہ اس کے گھر کے مالی حالات کے حساب سے فیس طے کیا جاتا ہے۔
جاوید احمد کا کہنا ہے: ’ہم نے جماعت کے مطابق طالب علم کا فیس مقرر نہیں کیا ہے بلکہ ہم اس کے گھر کے مالی حالت کے حساب سے فیس طے کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا: ’کسی بچے کا فیس ڈیڑھ ہزار فی ماہ، کسی کا ایک ہزار تو کسی کی ماہانہ فیس صرف دو سو روپیے ہے‘۔
ان کا کہنا تھا اس کے علاوہ گذشتہ تین برسوں سے عظیم پریم جی فاؤنڈیشن ہمارے اسکول کی مالی مدد کر رہی ہے جس کے لئے ہم اس ادارے کے مشکور ہیں۔
موصوف نے کہا کہ اس ادارے کی مدد سے ہی ہم اسکول کی ایک شاندار بلڈنگ تعمیر کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں اور ہم اب اس اسکول کا درجہ آٹھویں جماعت سے دسویں جماعت تک بڑھانے کے لئے بھی اقدام کریں گے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.